عورت: اسلام اور فیمینزم


اگر بات کی جائے عورت کی تو جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ تو کچھ غلط نہیں کہا یعنی عورت ایک ایسی ذات ہے جس کے بغیر یہ معاشرہ نہیں چل سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ساری رعنائی اور دلفریبی عورت کے وجود سے ہے۔ خداوند کریم نے بھی مرد کے ساتھ ساتھ عورت کو اعلی مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ اسلام کو بھی وسیع پیمانے سے دیکھا جائے تو اسلام نے بھی عورت کو اپنے حقوق کو پورا کرنے اور ان کو حاصل کرنے کی پوری چھوٹ دی ہے۔

اسلام نے عورتوں کی تعلیم پر بھی زور دیا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں حصہ لینے کی تاکید بھی کی ہے۔ جس کی مثال حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی ذات مبارکہ سے لی جاتی ہے کہ وہ ایک نامور مشہور تاجرہ تھی یعنی اسلام عورتوں پر کوئی پابندی نہیں لگاتا وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں مگر اسلام کی ان عظیم ہستیوں اور عورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے جنہوں نے اپنی عزتوں، عفتوں کی حفاظت کرتے ہوئے ہر کام کو سرانجام دیا۔

اگر عورت کے لفظی مطلب کی بات کی جائے تو اس کے معنی ہے ”چھپی ہوئی“۔ چونکہ انسانی تمدن کی عمارت بنانے میں مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی ایک ایسا ستون ہے کہ جس کے تعاون کے بغیر یہ معاشرہ اور عمارت کا کھڑا ہونا ناممکن ہے تو عورت کو چاہیے کہ وہ خود کو چھپا کر دھک کر دایرہ اسلام میں رہتے ہوئے باکردار اور ہو سکے تو پردے کا اہتمام کرتے ہوئے دنیا کے ہر شعبے میں کام کریں اور اپنے فرائض سرانجام دیں جس کی حدود کا تعین اسلام نے کیا ہے۔

چونکہ دنیا ایک فطری تقسیم کار ہے اور مرد عورت کی فطرت کے عین مطابق ہے اور اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی علیحدہ علیحدہ ہیں۔ جیسے کہ عورت کے ذمے اندرون خانہ کی ذمہ داریاں ہیں اور مردہ بیرون خانہ کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فطری لحاظ سے دونوں کی ذمہ داریاں علیحدہ علیحدہ ہیں اور اگر عورت کو ہر قسم کے حقوق مہیا کیے جا رہے ہیں جس کا تعین اسلام نے کیا ہے تو کیوں فیمینزم کے تصور نے آج عورت کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ یہ غلط چیز ہے پر اسلام کو ترجیح دیتے ہوئے اور اس کی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے بالکل عورت کو اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے چاہیے۔ لیکن آج کل منفی فیمینزم کا تصور اتنا بڑھ چکا ہے کہ حال ہی میں ہونے والی عورت مارچ پر ایسے ایسے سلوگنز دیکھنے کو ملے جن کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے اسلامی عورت کا وجود کہیں دور سا رہ گیا ہے۔ کیا اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم خود موقع دیں مرد کی ذات کو کہ وہ ہم پر آوازیں کسیں۔

صرف ایک ایسا حق پانے کے لیے جس کو آج کل ”مائی بوڈی مائی ڈیسین“ کا نام دیا گیا ہے کیا اس تصور نے اس قدر عورت کو جاھل بنا دیا ہے؟ خدارا عورت چھپی ہوئی چیز کا نام ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ دین عورت کو کسی بھی چیز سے نہیں روکتا بلکہ ہر بات میں عورت کی رائے اور اس کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے مگر مثبت اور نفیس رویہ اختیار کرتے ہوئے۔

میں فیمیزم کے خلاف نہیں یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے اگر اس کو اسلام کے میزان میں تولتے ہؤے بروئے کار لایا جائے اور جس طرح اسلام ایک باکردار اور باپردہ عورت پیش کرتا ہے اس انداز سے اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔ ہر ایک کا نقطہ نظر مختلف ہے اور ہونا بھی چاہیے پر میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورت جس کے ذمے بہت سے کردار ہیں بیٹی، بہن، ماں، بیوی احسن طریقے سے ان کو نبھاتے ہوے معاشرے میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں کام کریں جو کم ازکم اسلام پر مبنی ہو جو کہ اسلامی عورت کے لئے ضروری ہے۔

مردوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر اسلام کے عین مطابق عورتوں کو ان کا حق دیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ اس طرح سڑکوں پر نکلیں کیونکہ ہر چیز کے دو پہلو ہیں پھر بھی ان کے مطالبات نہ پورے کیے جائیں تو خود کو منوانے کے لئے اگر فیمینزم کا سہارا لینے کی ضرورت پڑے تو کوئی حرج نہیں بس اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں تاکہ مردوں کو بولنے کا موقع بھی نہ ملے اور عورتوں کے کردار پر کوئی آنچ بھی نہ آئے اور اس طرح مثبت فیمینزم کی مہم چلائیں تاکہ اسلام میں جو تصویر پیش کی گئی ہے عورت کی وہ بھی برقرار رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).