عقیدہ اور عقل کا ٹکراؤ لازم ہے


انسان اپنے ابتدائی دور سے ہی اس کائنات اور اپنی ذات کو جاننے اور اس کی پیچیدہ گھتیوں کو سمجھنے اور سلجھانے میں مصروف ہے۔ سمجھنے اور سلجھانے کے اس عمل کے دوران ابتدائی انسانی دور ہی میں دو مکتبہِ فکر سائنسی فلسفے اور غیر سائنسی فلسفے کی صورت وجود میں آگئے تھے۔ سائنسی اور مادی فلسفے کی بنیاد عقل، دلیل، ثبوت، مشاہدہ، تجربے اور ٹھوس بنیادوں پر جبکہ غیر سائنسی اور غیرمادی فلسفے کی بنیاد تصورات اور عقائد کی بنیاد پر قائم ہوئی۔

انسانی تاریخ میں ان دونوں مکتبہِ فکر کے درمیان ہمیشہ سنگین محاذ قائم رہے اور صدیوں پر محیط اس فکری جنگ میں جہاں جہاں عقل، دلیل اور سائنس کا پلڑا بھاری ہوا ان تہذیبوں اور معاشروں نے دنیا پر حکمرانی کی اور ہر وہ معاشرہ جہاں عقیدہ نے عقل اورسائنسی طرزِفکر کو کمزور کیا وہ زوال کا شکار ہوا۔

عقائد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہ جامد اور ناقابل تبدیل تصور کیے جاتے ہیں لہذا ہر دور میں جو بھی عقائد پیش کیے جاتے ہیں وہ عارضی طور پر تو معاشرے کی ضروریات کو پورا کرلیتے ہیں لیکن جوں جوں انسانی معاشرے تبدیل ہوتے ہیں (جو کہ ایک ناگزیر عمل ہے ) عقائد ان تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز کا سامنا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس ناکامی کا مقابلہ کرنے کے لئے عقائد ہمیشہ سائنسی بنیادوں پر ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ المیہ رہا ہے کہ مغرب کے مقابلے میں مشرق، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے معاشروں میں عقل پر عقیدہ کا غلبہ رہا اور ان معاشروں کی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمیں پیدائشی طور پر کسی نہ کسی عقیدے، مذہب اور فرقے سے منسوب کر دیا جاتا ہے اور پھر ہم تمام زندگی اپنی توانائیاں ایک ایسے عقیدے کو درست وحق پر ثابت کرنے میں لگاتے ہیں جسے سوچنے سمجھنے اور چننے کا اختیار ہمیں کبھی دیا ہی نہیں گیا تھا اور یہ ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ ہم جس بھی مذہب و فرقہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ ہی حق پر ہوتا ہے اور باقی سب باطل۔

کیا اس بات سے بھی انکار ممکن ہے کہ کسی بھی عقیدہ پرست معاشرے میں عمومأ تحقیق اور تحریر اس بنیادی نقطہ کے گرد گھومتی ہے کے رائج عقائد اور اس کے قوانین و اخلاقیات کو درست ثابت کیا جا سکے اور اس مقصد کے لیے تاریخ کو مسخ کرنا، تاریخی سچائیوں کو جھٹلانا اور نظر انداز کرنا ایک عمومی رویہ ہے۔

انسانی معاشروں میں جو مرحلہ وار سماجی اور مادی بہتری ہوئی ہے۔ وہ صدیوں سے ایک نسل سے دوسری نسل کو سائنسی علمی سرمائے کی منتقلی کے باعث ہوئی ہے۔ ا نسان کے علمی ورثہ کو کسی مخصوص عقیدے یا مذہب سے جوڑنا خود کو دھوکے میں رکھنے اور اپنے ساتھ ذیاتی کے مترادف ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ تمام مذہبی افراد خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب، فرقے و عقیدے سے ہو وہ اس بات کو ثابت کرنے میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں کہ تسلیم شدہ جدید معاشرتی رہنما اصول ان ہی کے عقائد کی دین ہیں۔ مگر تاریخی سچائی یہ ہے کہ معاشرتی رہنما اصولوں کا تعلق بھی کسی خاص عقیدے و مذہب سے نہیں رہا ہے۔

آ پ قبل از اسلام اور قبل از مسیح کے سقراط و ارسطو سمیت دیگر فلسفیوں کی تحریریں پڑھیں۔ سماجی و کائناتی مسائل پر ان کے مباحث اور ان مباحث کے معیار پر ایک غیر جانبدار طالبعلم کی حیثیت سے نظر ڈالیں تو ڈھائی تین ہزار سال پرانا انسانی علمی ورثہ آپ کو مبہوت کر دے گا۔ آپ مختلف صدیوں مین نمودار ہونے والے مذاہب کی تعلیمات کو سامنے رکھ لیں تو آپ یقیناً اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کس طرح انسانی علم چاہے وہ الہامی ہی کیوں نہ ہو نسل بہ نسل منتقل ہو تا ہے۔

عقائد کے برعکس سائنس اور سائنسی طرز فکر ہمہ وقت عقلی پیمانے پر نئے حقائق اور نت نئے راز کھوجنے کا نام ہے۔ اور انسانی معاشرے اور ان کی ضروریات تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں اور انسانی معاشروں کو درپیش نت نئے چیلنجز کا جواب صرف سائنس اور سائنسی طرز فکر کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ لاکھ احتیاط کے باوجود عقائد کے غیر سائنسی اور غیر استدلالی ہونے کے باعث سائنسی سوچ سے ٹکراؤ ہونا لازم ہے۔

ہر عقیدہ پرست معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی عقیدہ کے مقابلے میں عقل کی بات کرنا اور سائنسی طرز فکر اختیار کرنا ایک کٹھن کام ہے۔ اور یہ مشکل سفر عقل و جگر والوں کے ہی بس کی بات ہے

یاد رکھیے اپنے گھر، اپنے خاندان، اپنے معاشرے میں رائج مذہبی و سماجی خیالات و عقائد کو چیلنج کرنا اور ان کے مقابلے میں نئی سوچ اور نئے نظریہ کو جگہ دینا بالکل بھی آسان نہیں۔ اس کی بھاری قیمت دینا پڑتی ہے۔ بقول جون ایلیا۔

آپ اپنے سے ہم سخن رہنا

ہمنشیں سانس پھول جاتی یے

کسی فلاسفر کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنی ذات میں سکون واطمینان چاہتے ہیں تو عقیدہ پر یقین رکھیے اوراگر آپ سچ کی تلاش میں ہیں تو شک، جستجو، اور تجسس کی راہ پر چلیں۔

عشق بھی جسے سمجھ نہیں سکتا

عقل اس کرب میں مبتلا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).