ایک ازکار رفتہ سپاہی کی ڈائری سے۔۔۔


1977 ء میں، میں بارہ سال کا تھا۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو قبل از وقت اسمبلیاں تحلیل کر کے انتخابات کا اعلان کر چکے تو ایک رات ہمارے گھر کے پاس سے ایک جلوس کسی شخص کا نام لے کر فحش گالیاں بکتے ہوئے گزرا۔ بھٹو صاحب کے نام سے یہ میری پہلی شناسائی تھی۔ فطری طور پر میرے دل میں اس شخص کے لئے کہ جسے میں جانتا بھی نہیں تھا، ہمدردی کے جذبات اُمنڈ آئے۔ کچھ ہی دن میں مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میرے والد اور ہمارا سارا خاندان بھٹو صاحب اور ان کی پیپلز پارٹی کے حامی تھے۔

میرے والد اپنے اکلوتے اور عمر میں محض ایک سال بڑے بھائی کے ساتھ قیام پاکستان کے سال، گورو نانک خالصہ کالج گوجرانوالہ (حالیہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج) میں گریجوایشن کے آخری سال میں تھے۔ تحریک پاکستان میں دیگر نوجوان مسلمانوں کی طرح جلسے جلوسوں میں حصہ لیتے۔ پولیس کبھی کبھار طالب علموں کے سالم جلسے کو ٹرکوں میں بھر کر شہر سے دور چھوڑ آتی۔ واپسی کا سفر ان نوجوانوں کے لئے الٹا تفریح طبع کا باعث بنتا۔ آزاد وطن کا قیام عمل میں آگیا تو طالب علمی کا دور بھی اختتام کو پہنچا۔

زندگی کی تلخ حقیقتیں منہ چڑانے لگیں۔ متروکہ املاک کی لوٹ مار، دوستوں کی ہجرت اور نئے وطن میں معاشی اور معاشرتی اُتھل پتھل میں دونوں بھائی ساکت کھڑے ہجوم کو دیکھتے رہے تو احساس اجاگر ہواکہ اُجالاتو ابھی تک داغ داغ ہے حالات پر تاسّف اب پچھتاوے میں بدلنا شروع ہوا تو سرحد پار ُسدھار جانے والے دوست، پرانے محلے دار اور خالصہ کالج کے سکھ اساتذہ یاد آنے لگے۔ تلملا کر ترقی پسند تحریک کہ جس کا جھکاؤ بائیں بازو کی جانب تھا، سے وابستہ ہو گئے۔

اس تحریک سے وابستہ لوگ ایوب خان کے مارشل لاء اور فوج کے سیاسی معاملات میں در اندازی کے سخت ناقدین میں تھے۔ بھٹو صاحب نے فیلڈ مارشل سے بغاوت کی تو اُسی سے سب امیدیں وابستہ کر لیں۔ میرے تایا اس دوران ایچیسن کالج لاہور میں پڑھانے لگے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خان ولی خان کے بھائی کالج کے پرنسپل تھے۔ بھٹوصاحب کے دونوں صاحبزادے بھی کالج میں زیر تعلیم تھے۔ بقول میرے عمّو جان، دونوں صاحبزادے طبعاً سست الوجود، مزاجاً مغرور اورتعلیمی لحاظ سے نالائق تھے۔ سوچتا ہوں، صاحبزادے اگر زندہ رہتے اور اپنے زرداری صاحب کا بے وقت ظہور نہ ہواہوتا، تو ان دونوں میں سے کم از کم ایک تو ہمارا وزیر اعظم بنتا۔

1979 ء میں بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ جونہی یہ خبرٹی وی پر نشر ہوئی تومیری مرحومہ والدہ خاموشی سے اٹھیں اور کونے میں پڑے ٹی وی کے بالکل پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے دیکھا وہ چپکے چپکے سسکیاں بھرتے ہوئے زاروقطار رو رہی تھیں۔ آنے والے تین چار سال ہم مارشل لاء کے مظالم اور ظلم کی اندھیری رات کی داستانیں سنتے رہے۔ اس دوران افغانستان میں روسی فوج در آئی تو ہمیں بتایا گیا کہ فوجی حکومت نے امریکی دباؤ میں انتہائی غلط فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کے علاوہ کیا راستہ تھا۔

یہ تقریباً وہی دور تھا جب لاہور کے ایک معروف صنعت کار کا بیٹا جو پینتیس چھتیس کے پیٹے میں تھا، لال شرٹ اور ہری پتلون پہن کرنیلی پیلی سپورٹس کاروں کے ساتھ تصویریں بنواتا اور فون پر محمد رفیع کے گانے دوستوں کو سنا کر داد پاتا تھا۔ مارشل لاء کو سول چہرہ دینے کے لئے سیاستدانوں کی حکومت میں بھرتی شروع ہوئی تو جہاں دیدہ صنعت کاراپنے بیٹے کو انگلی سے پکڑ کر گورنر ہاؤس میں لے آیا۔ ہاتھ اس کا جرنیل کے ہاتھ میں دیا اور گھر لوٹ آیا۔ غالبا اسی کے آگے پیچھے کا کوئی سال تھا کہ میں نے سترہ سال کی عمر میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کے گیٹ کے اندر پی ایم اے روڈ پر پہلا قدم رکھا۔

1985 ء کے دوران میں پاس آؤٹ ہو کر کوئٹہ میں تعینات ہوا۔ ایک دن ایک دوست کے ہاں کہ جس کا تعلق انٹیلی جینس یونٹ سے تھا، مجھے بلوچستان کے کسی دورافتادہ مقام پر قوم پرستوں کے ایک جلسے میں کی گئی تقریروں کا متن دیکھنے کو ملا۔ بلوچ نوجوان، پاکستان سے آزادی جبکہ روس سے گوادر پر بندرگاہ تعمیر کر کے ان نوجوان علیحدگی پسندوں کے حوالے کردیے جانے کے خواہشمند تھے۔ مقامی پشتونوں سے انتہائی خوشگوار ملاقاتیں رہتیں۔ بلوچستان کے کسی حصے میں آنے جانے پر کوئی خدشات نہیں تھے۔ ایک مرتبہ ایسی ہی کسی محفل میں ایک ولایت پلٹ پختون نوجوان سے ملاقات ہوئی تو اسے ”پنجابی فوج“ سے شاکی پایا۔ اس وقت تک کم کم ہی پاکستانیوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں جانے کا موقع ملتا تھا۔

1988 ء میں جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو گھر بھیج دیا۔ عبوری انتظامیہ کے لئے وفاداروں کی ضرورت در پیش آئی تو لاہور کے صنعت کار کا بیٹا جو خود بھی برطرف ہو کر مری میں بیٹھا تھا ایک آواز پر صوبائی حکومت سنبھالنے بھاگا چلا آیا۔ جنرل ضیاء کی شہادت اور آنے والے سالوں کے جمہوری ادوار کے دوران میری اور میرے خاندان کی ہمدردیاں، اس امر کے باوجود کہ جناب زرداری صاحب بھی منظرعام پر آ چکے تھے، بالعموم بھٹو صاحب کی پارٹی اور ان کی صاحبزادی سے ہی وابستہ رہیں۔

1999 ء میں پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کیا تو زندگی میں پہلی بار کسی مارشل لاء کے نفاذ پر ہمیں طمانیت کا احساس ہوا۔ سُنا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد، بشمول بے نظیر بھٹو نے بھی مشرف کو ہی نواز شریف پرفوقیت دی تھی۔

2001 ء میں یونٹ کی کمانڈ سنبھالنے کوہاٹ پہنچا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اُدھر ہمارے افسر اور جوان اپنے فرائض کی بجا آوری میں سروں کے نذرانے پیش کر رہے تھے تو ادھر سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ فوج کس کی جنگ لڑ رہی ہے! دہشت گردوں کو اپنے ناراض بچے کہا گیا اور ان کے ساتھ سختی کی بجائے مذاکرات پر زور دیا جاتا۔ کئی ایک مذہبی پارٹیوں کے گھروں سے دہشت گرد برآمد ہوتے مگر دہشت گردی کے واقعات کے لئے ایجنسیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا۔

آزادی اظہار رائے کے نام پر دہشت گردوں کو میڈیا پربراہ راست لایا جاتا جو ریاست کو خم ٹھونک کر دھمکیاں دیتے۔ ادھر مغرب نواز لبرل دانشور جن کی اکثریت سابقہ روس نوازسُرخوں پر مشتمل تھی، ہماری پیٹھوں پر تازیانے برساتے کہ فوج اور جرنیل دوہرا کھیل کھیلتے ہوئے دہشت گردوں پر یکسوئی سے ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہیں۔ خدا خدا کر کے تاریک رات میں آگ کا ایک دریا تھا جو ہم نے پار کیا۔ میں کہ نہ کوئی دانشور، نہ ہی سکالر، کہ بس ایک از کار رفتہ سپاہی ہوں، ایک بار پھر ایک بے چہرہ جنگ میں اپنے سنہرے افسروں، سجیلے جوانوں اور بے گناہ قبائلیوں کی شہادتوں پر دل گرفتہ ہوں۔

ایک بار پھر خاک و خون میں لپٹے بھیانک دور کے پلٹنے کے اندیشوں سے نالاں ہوں۔ کل جب ہم اسلام کا لبادہ اوڑھنے کے دعویدار درندوں سے بر سر پیکار تھے، تو ہم پر ’پرائی جنگ‘ لڑنے کا آروپ تھا۔ آج آئین کی بالا دستی، جمہوریت کی سر بلندی اور انسانی حقوق کے چمکدار نعروں سے لیس وہی مانوس چہرے ایک بار پھرہم پر پُھنکار رہے ہیں۔

چار عشرے پہلے پی ایم اے روڈ پر پہلا قدم رکھا تھا تو آ ج بھی اُسی سڑک کے آس پاس گھومتا ہوں۔ دو اطراف بسنے والی بیرکس اور اُن میں ہنستے بستے چہرے دل سے نکل کر نہیں دیتے۔ وقت اگرچہ بدل چکا ہے کہ حال ہی میں ’نظریاتی‘ ہونے والے بھی اب ہم کو جمہوریت، آئین اور انسانی حقوق پر لیکچر دیتے ہیں۔ بارہ سال کی عمر میں مگر میں جس بھٹو کے سحر میں مبتلا ہوا تھا وہ کہیں کھو گیا ہے۔ اگرچہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ اب بھی کہیں پر زندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).