چین کو ملزمان کی حوالگی کے قانون کے خلاف ہانگ کانگ میں مظاہرے


مظاہرہ

ہانگ کانگ میں ہزاروں لوگ ایسے مجوزہ قانون کے خلاف مارچ کر رہے ہیں جو ناقدین کے بقول علاقے میں سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے میں چین کی مدد کر سکتا ہے۔

ملزمان کی دوسرے ملک کو حوالگی سے متعلق متنازع مجوزہ قانون کے مطابق مشتبہ ملزمان کو سماعت کے لیے چین بھیجا جائے گا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ یہ سنہ 2014 کی امبریلا موومنٹ کے بعد، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر آئے تھے، اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہو گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ قانون میں ملزمان کی دوسرے ملک کو حوالگی کے حوالے سے تحفظ دیا گیا ہے اور یہ تجویزکردہ قانون موجودہ خامیوں کو روکے گا۔

یہ بھی پڑھیے!

شی جن پنگ: ’تائیوان چین میں ضم ہو کر رہے گا‘

تیانانمن سکوائر: ہانگ کانگ میں شمعوں کا سیلاب

’تیانانمن سکوائر پر مظاہرین کے خلاف کارروائی درست تھی‘

ہانگ کانگ کے رہنما کیری لام جولائی سے پہلے ہی ترمیم منظور کروانے پر زور دے رہے ہیں۔

حمایتیوں کا کہنا ہے کہ مذہبی اور سیاسی مشکلات کا سامنا کرنے والے افراد کو چین جانے سے روکنے کے لیے لائحہ عمل موجود ہے۔

لیکن تجویزکردہ قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی سابق نو آبادی کو چین کے انتہائی ناقص انصاف کے نظام کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کی وجہ سے ہانگ کانگ کی عدلیہ کی آزادی مزید متاثر ہو گی۔

شدید دھوپ میں مظاہرین نے سفید رنگ کے ملبوسات زیبِ تن کر رکھے ہیں۔

احتجاج میں کاروباری حضرات، وکلا، طالبعلم، جمہوریت کے حامی اور مختلف مذہبی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کر رہے ہیں۔

59سالہ پروفیسر راکی چینگ نے خبر رساں ادارے روئیٹرز کو بتایا ‘ہانگ کانگ کے لیے یہ آخری مرحلہ ہے، یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک گھناؤنا قانون ہے۔’

جھنڈا

تجویز کردہ تبدیلیاں کیا ہیں؟

ان تبدیلیوں کے پیشِ نظر چین، تائیوان اور مکاؤ کے حکام قتل اور ریپ جیسے جرائم میں ملوث مشتبہ ملزموں کی حوالگی کی درخواست کر سکیں گے۔

پھر درخواستوں پر الگ الگ فیصلہ دیا جائے گا۔

ہانگ کانگ کے حکام کے مطابق حوالگی کی درخواستوں سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار ہانگ کانگ کی عدالتوں کو حاصل ہو گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی اور مذہبی جرائم سے جڑے مشتبہ ملزموں کو چین کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

حکومت نے کچھ رعایتیں دینے کا اعلان کر کے عوام کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے، جیسے کہا جا رہا ہے کہ ایسے جرائم میں ملوث ملزمان کو حوالے کیا جائے گا جن کی سزا کم از کم سات سال ہو گی۔

عوام کی طرف سے کافی مخالفت دیکھنے میں آئی ہے اور ناقدین کہتے ہیں کہ چین کے عدالتی نظام کے تحت لوگوں کو صوابدیدی حراست، غیر منصفانہ سماعت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہانگ کانگ

تبدیلی اب کیوں آئی ہے؟

تازہ ترین تجویز اس وقت سامنے آئی جب گزشتہ سال فروری میں تائیوان میں سیر و تفریح کے لیے آئے ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے ایک 19 سالہ شخص نے مبینہ طور پر اپنی 20 سالہ حاملہ گرل فرینڈ کو قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ سال وہ شخص تائیوان سے فرار ہو کر ہانگ کانگ آ گیا تھا۔

تائیوانی حکام نے ہانگ کانگ حکام سے اس شخص کی حوالگی سے متعلق مدد طلب کی لیکن ہانگ کانگ حکام نے مطالبہ یہ کہہ کر رد کر دیا کہ تائیوان اور ہانگ کانگ کے درمیان ملزموں کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

لیکن تائیوان کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ مجوزہ تبدیلیوں کے بعد مشتبہ ملزم کی تائیوان حوالگی پر زور نہیں دے گی۔ انھوں نے ہانگ کانگ سے کہا کہ وہ اس مقدمے سے الگ طرح سے نمٹے۔

شی جن پنگ

چین ہانگ کانگ پر حکمرانی نہیں کرتا؟

برطانیہ کی سابق نو آبادی، ہانگ کانگ، سنہ 1997 میں چین کو واپس کیے جانے کے بعد ‘ایک ملک، دو نظام’ کے اصول کے تحت ایک نیم خود مختار ریاست بن گئی تھی۔

ہانگ کانگ کے اپنے قاعدے قانون ہیں اور اس کے رہائشیوں کو وہ شہری آزادی حاصل ہے جو عام چینی باشندوں کو حاصل نہیں ہے۔

ہانگ کانگ کے برطانیہ اور امریکہ سمیت 20 ممالک کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے معاہدے ہیں لیکن دو دہائیوں سے چلنے والے مذاکرات کے باوجود چین کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔

ناقدین کہتے ہیں کہ ان ناکامیوں کی وجہ چینی قانون میں مدعا علیه کا ناقص قانونی تحفظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp