پیشِ خدمت ہے راگ بجٹ میں تازہ ٹھمری


دو روز بعد (گیارہ جون) عمران حکومت اپنا پہلا سالانہ قومی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ گذشتہ بجٹ مسلم لیگ ن حکومت نے پیش کیا تھا۔ مگر عمران حکومت نے اس بجٹ میں پچھلے ایک برس کے دوران دو اضافی منی بجٹ بھی سی دئیے۔

نئے بجٹ میں اہتمام رکھا جائے گا کہ محصولاتی آمدنی میں اضافے، توازنِ ادائیگی میں بہتری اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کی بابت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) سے جو وعدے ہوئے ہیں وہ پورے ہوتے نظر آئیں۔ گویا اہلیانِ پاکستان سیٹ بیلٹ باندھ لیں کیونکہ معاشی پرواز کم ازکم اگلے دو برس کے لیے ناہموار ہونے والی ہے۔

بجٹ سے پہلے جو سالانہ اقتصادی سروے شائع کیا جاتا ہے۔ اس کی باضابطہ رونمائی تو خیر کل (سوموار) ہو گی۔ مگر کچھ چیتے صحافیوں نے اپنے ذرائع کی مدد سے اس اقتصادی سروے میں جو تاکا جھانکی کی ہے اگر وہ درست ہے تو پھر یوں سمجھ لیں کہ موجودہ مالی سال (دو ہزار اٹھارہ انیس) کے لیے گذشتہ حکومت ترکے میں جو اقتصادی اہداف چھوڑ گئی تھی۔ ان میں سے سوائے مویشیوں کی افزائش کے کسی اور شعبے میں کوئی ہدف حاصل نہیں ہو پایا۔

موجودہ مالی سال کے لئے کل قومی پیداوار میں اضافے کا ہدف چھ اعشاریہ تین فیصد مقرر کیا گیا مگر صرف تین اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہی ہو سکا۔ صنعتی شعبے میں ترقی کا ہدف سات اعشاریہ چھ فیصد تھا لیکن صرف ایک اعشاریہ چار فیصد ترقی ہی ہو سکی۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں آٹھ اعشاریہ ایک فیصد بڑھوتری کے ہدف میں سے صرف دو فیصد ہی حاصل ہو پایا۔ حالانکہ مینوفیکچرنگ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یعنی بجلی کی پیداوار میں کمی پر پچھلے ایک برس میں خاصی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔

زرعی شعبے میں ترقی کا ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد مقرر کیا گیا مگر آبی قلت، خشک سالی اور موسمی اتھل پتھل کے سبب زرعی شعبے میں ایک فیصد سے بھی کم ترقی ہو سکی۔ صرف مویشی بانی کا شعبہ طے شدہ ہدف تین اعشاریہ آٹھ فیصد سے زائد ترقی کر پایا۔ سروس سیکٹر میں ساڑھے چھ فیصد ٹارگٹ سے دو فیصد کم اور تعمیراتی شعبے میں دس فیصد کے بجائے ساڑھے سات فیصد تک ترقی ہو پائی۔

قرضوں پر سود کے بعد پاکستان کا سب سے زیادہ پیسہ دفاعی شعبے پر صرف ہوتا ہے۔ گذشتہ دس برس کے دوران دفاعی اخراجات میں تہتر فیصد اضافہ ہوا۔ موجودہ مالی سال کا ایک اعشاریہ ایک کھرب روپے کا دفاعی بجٹ گذشتہ مالی سال کی نسبت اٹھارہ فیصد زائد تھا۔ یعنی کل قومی آمدنی کا تین اعشاریہ دو فیصد قومی دفاع پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ ( اس میں ڈھائی سو ارب روپے کے پینشن اخراجات اور اندرونی اضافی دفاعی و انتظامی ذمہ داریوں کے وہ پینتالیس ارب روپے شامل نہیں جو سویلین بجٹ کا حصہ شمار ہوتے ہیں)۔

بظاہر ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے ناتے پاکستان کا دفاعی بجٹ زیادہ محسوس ہوتا ہے اور دفاعی اخراجات کے اعتبار سے اس کا دنیا میں بیسواں نمبر ہے۔ مگر پاکستان کے حریف بھارت کا دفاعی بجٹ پانچواں بڑا عالمی بجٹ ہے۔ نئے مالی سال کے دوران پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، بلکہ ڈالر کی قدر میں لگ بھگ اٹھارہ فیصد اضافے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دفاعی بجٹ موجودہ مالی سال کے مقابلے میں حقیقی طور پر کم ہی ہوگا۔

البتہ جب صحت، تعلیم، پاپولیشن کنٹرول جیسے بنیادی شعبوں پر خرچے کے تناظر میں دفاعی اخراجات دیکھے جائیں تو لگتا ہے گویا ایک غیر صحت مند اور غیر پڑھی لکھی قوم کی پسماندگی کا دفاع ہو رہا ہو۔

عمران سرکار سے پوچھا جائے کہ موجودہ مالی سال میں اقتصادی ترقی کے طے شدہ بنیادی اہداف کیوں حاصل نہیں ہو سکے تو ترنت جواب یہ ہے کہ سابق حکومت نے جاتے جاتے ایسے غیر حقیقی اہداف نئی حکومت کو تھما دئیے جن کا پورا کرنا بہت مشکل تھا۔

دو دن بعد پیش ہونے والے بجٹ میں معاشی ترقی کے جو بھی نئے اہداف مقرر ہوں گے وہ خالصتاً پی ٹی آئی حکومت کے ہوں گے۔ لہذا اگلے برس یہ راگ سنانے سے پرہیز کیا جائے کہ اگر اپوزیشن جہنم رسید ہو جاتی تو ہم یہ اہداف با آسانی حاصل کر سکتے تھے۔

موجودہ مالی سال کے لئے کل قومی پیداوار میں اضافے کا ہدف چھ اعشاریہ تین فیصد مقرر کیا گیا مگر صرف تین اعشاریہ تین فیصد کا اضافہ ہی ہو سکا ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).