گلگت بلتستان: کیرئیر ٹیسٹنگ سروس پاکستان کی کارکردگی


گلگت بلتستان کے سرکاری محکموں میں ملازمتوں کے اس وقت امتحان لینے کی ذمہ داری ایک نجی ادارہ کیرئیر ٹیسٹنگ سروس پاکستان انجام دے رہا ہے۔ اس ادارے کے فیس بک پیج پر دی معلومات کے مطابق گزشتہ سال گلگت بلتستان حکومت اور اس ادارے کے درمیاں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت گلگت بلتستان میں مختلف سرکاری محکموں میں چھٹے سکیل سے پندرویں سکیل تک مستقل ملازمت اور چھٹے سکیل سے اوپر کے پراجیکٹ کے تمام اسامیوں پر سکریننگ ٹیسٹ کروائے کی ذمہ داری اس ادارے کو دی گئی۔

یہ معاہدہ مورخہ یکم جولائی 2018 سے شروع ہو کر مورخہ جون 2019 تک نافذالعمل رہے گا۔ مذکورہ بالا ادارہ اسی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کے مختلف سرکاری محکموں کے لئے یہ ادارہ ٹیسٹ تو لے رہا ہے مگر اس کی کارکردگی کے حوالے سے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو شدید تحفظات ہیں۔ ہو سکتا ہے تحفظات رکھنے والے تعداد میں کم ہوں مگر تحفظات کی نوعیت انتہائی سنگین ہے

اس معاہدے کے حوالے سے گلگت بلتستان کا کوئی بھی جوان یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اس ادارے کے ساتھ معاہدے میں گلگت بلتستان حکومت کا کون سا نمائندہ شامل تھا؟ کن شرائط پر معاہدہ ہوا تھا؟ کیا حکومت نے امیدواروں کو صرف ایس ایم ایس بھیجنا کافی قرار دیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو اس فارم میں عارضی پتہ، مستقل پتہ اور ای میل ایڈرس وغیرہ کیوں لیا جاتا ہے؟ راولپنڈی اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور وغیرہ میں مقیم بے روز گار نوجوانوں کو گلگت ہی جانا کیوں پڑتا ہے ان امیداواروں کے لئے اپنے قریبی شہروں میں ٹیسٹ کابندوبست کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟

کیا معاہدے میں یہ بات شامل ہے کہ ادارے کی شفافیت پر جتنا مرضی سوال اٹھتے رہیں مگر ان سے جواب طلب نہیں کرنا ہے؟ اگر جواب طلب کیا گیا ہے تو ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اور کاروایوں کا کتنا اثر ہوا؟ کیا یہ کرپشن اور نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ کسی امیدواروں کو رول نمبر سلپ بھیجنے کے بجائے محض ایس ایم ایس پر گزرا کرتا ہے جس سے بہت سارے لوگ ٹیسٹ میں شامل ہونے سے محروم رہتے ہیں۔ راقم کے ساتھ یہی ہوا ہے گزشتہ سال انفارمیشن افسر کی پوسٹیں آئی تھیں جس پر راقم نے بھی اپلائی کردی اور اس انتظار میں رہا کہ رول نمبر سلپ یا کال لیٹر آنے پر ٹیسٹ میں شامل ہو جاؤں گاچاربینک چالان کے علاوہ باقی تین صفحوں پر مشتمل درخواست فارم مکمل کوائف دینا تھا جس میں موبائل نمبر، ای میل آئی ڈی، عارضی و مستقل پتہ تک شامل تھے اور اب بھی یہی ہے۔

اور اس درخوست فارم کے آخری صفحہ پر لکھاہوا ہے کہ Information about Roll No Slip/Test date/Test Center will be provided by SMS، Website، Email، Face book۔ ترجمہ: ( امیدوار ) کو رول نمبر سلیپ، ٹیسٹ کی تاریخ اور سنٹر کے بارئے میں ( موبائل پر) ایس ایم ایس، ویب سائٹ، ای میل اور فیس بک کے ذریعے آگا ہ کیا جائے گا۔ لیکن شومئی قسمت ٹیسٹ کے بارئے میں اس کی تاریخ گزرنے کے بعد پتہ چلا۔ بعد میں ذمہ داروں سے بات کی انہوں نے اپنے موبائل سے اپنا نام بھیجنے کا حکم صادر کیا اس حکم کی تعمیل کی تو انہوں نے لفظ post لکھ کر جواب دیا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ امیدوار کو ایس ایم ایس ملے یا نہ ملے بلکہ انہیں تو صرف اپنے پیسوں سے غرض ہے۔

فیس بک پر ان سے ٹسسٹ میں شامل ہونے والے امیداروں کی طرف سے حاصل کردہ نمبر اور شارٹ لسٹ ہونے والے امیداروں کی فہرست جاری کرنے کا مطالبہ مسلسل کیا جا رہا ہے کہ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہے ورنہ انہیں ایسا کرنے کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اب واقعی حکومت کی اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے تو یہ آئین پاکستان کی آرٹیکل کے شق نمبر 184 ( 3 ) اور 19 A دونوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

کیونکہ 184 ( 3 ) کا تعلق مفاد عامہ سے ہے آئین کا یہ شق کہتا ہے کہ جہاں آئین پاکستان باب نمبر 2 شہریوں کو جو بنیادی حقوق دیتا ہے اس فراہمی کے حوالے سے سپریم کورٹ کو حکم صادر کر سکتی ہے۔ اس طرح آرٹیکل 19 A جو معلومات تک رسائی کو انسان کا بنیادی حق تسلیم کرتا وہ اسی باب نمبر 2 کا حصہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا مفاد عامہ کا مقدمہ بنتا ہے کہ امیدوار کو رول نمبر سلپ بھیجنے کے بجائے صرف ایس ایم ایس پر بھروسا کرنے سے امیدوارکی حق تلفی نہیں ہو گی کیونکہ مختلف وجوہات کے بنا پر اس کے ایس ایم ایس نہیں ملتا ہے جس کی وجہ امتحان شریک ہونے سے محروم رہ جاتا ہے کیونکہ اسے پتہ نہیں ہوتاکہ امتحان کب اور کون سے جگہ پر ہونا ہے؟

دوسرا جو لوگ امتحان میں شریک ہو بھی جاتے ہیں انہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ امتحان میں شامل ہونے والے کس امیدوار نے کتنے نمبر لئے ہیں؟ کہیں کم نمبر والے کی سفارش تکڑی ہونے کی وجہ سے شارٹ لسٹ تو نہیں کیا گیا؟ اور یہ صرف فرضی سوال نہیں اس طرح کی شکایتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ اس طرح شکایت پہلے تو ضلع گانچھے کے صدر مقام خپلو کے یونین کونسل میں میرٹ کی خلاف ورزی شکایت سامنے آئی تھیں، اور اسی طرح بعد شکایت سکردو اور کھرمنگ سے آتی رہی ہیں۔

غذر اور گلگت کے امیدواروں کو سکردو اور گانچھے کی پوسٹوں کے لئے شارٹ لسٹ کی شکایتیں آتی رہیں ہیں۔ دوسری طرف کیریئر ٹیسٹنگ سروس پاکستان کی طرف سے ان کی ویب سائٹ پر امیدواروں سے یونین کونسل کی تبدیلی کے لئے ایک بیان حلفی کا فارم جاری کیا گیا جس کی فیس چار سو روپے مقر ر کی گئی تھی تاہم فارم پڑھنے سے یونین کونسل کی تبدیلی میں غلطی کی ذمہ داری ادارے کے بجائے امیدوارں پر عائد کرنے کا تاثر نمایان ہے۔ جو کہ ان بے روزگار لوگوں سے پیسہ بٹورنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

۔ جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ کیرئیر ٹیسٹنگ سروس پاکستان اور گلگت بلتستان حکومت کا آپس آئین کی خلاف ورزی میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ناچیز یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ راقم کیرئیر ٹیسٹنگ سروسس پاکستان کی مجرمانہ غفلت کا شکار پہلا اور آخری بندہ نہیں ہے اور بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جعفراللہ خان صاحب بھی اسمبلی میں ہی اس ادارے کے لئے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں۔ اس لئے راقم یہ سمجھتا ہے کہ کیرئیر ٹیسٹنگ سروسس پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان دونوں آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں آئین کی خلاف ورزی پر کون نوٹس لے گا؟

اس لئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے گلگت بلتستان حکومت جس کے سربراہ وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن صاحب اور کیرئیر ٹیسٹنگ سروس پاکستان نامی ادارے کے ذمہ داراں کو آئین پاکستان خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے پر عدالت میں طلب کر کے ان سے پوچھا جائے اور حق تلفی ہونے والے امیدواروں کا اذالہ اور آئندہ اس قسم کی غلطی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا جائے اور اداروں میں ملازمتوں کے لئے اس طرح نجی اداروں سے ہونے معاہدوں کو فوری طور پر ختم کر کے تمام سرکاری پوسٹوں کے لئے ٹیسٹ لینے کی ذمہ داری فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو دینے کا حکم صادر کیا جائے۔ ( اگرچہ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سوموٹو نہ لینے کا عندیہ دے رکھا ہے ) راقم مالی اسطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں باضابطہ پٹشن فائل کرنے سے قاصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).