کاہل مشرقی


کئی برس سے ہمارے تہواروں کی چاشنی مانند پڑ گئی ہیں۔ خصوصاً جب سے خاندانی نظام نے مشرقی معاشرے میں بھی اپنی شکست کا اعلان کیا ہے، اجتماعی خوشیوں کا تصور بہت دھندلا گیا ہے۔ ہم اپنے زعماء کے تمام گناہ فراموش کر بھی دیں تو یہ انفرادیت کا زہر تمام عمر ہمیں ان کے اس فعل کی یاد دلاتا رہے گا کے جب ہماری تہذیب و ثقافت کو اجتماعی تقاضوں کی تکمیل سے بچایا جا سکتا تھا چند ریٹائرڈ سرکاری ادیبوں نے عوام کو خاندانی نظام کے ثمرات سے آگاہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

ہماری تہذیب و ثقافت آخر کیسے محفوظ رہ سکتی ہے، ظاہر سی بات ہے ہم نے آزادی حاصل کی تو ہمیں نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت تھی، جس میں معاشرے کے تمام طبقات کو برابر مواقع میسر آئیں۔ مگر شاید ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھانا، ہمارے لیے زیادہ باعثِ فخر تھا، سو ہم نے انگریز کے دیے ہوئے سماجی نظام کو نا صرف بحال رکھا بلکہ ذہنی پسماندگی کے تمام ذرائع بھی جاری رکھے۔ مثلاً 1947 سے آج تک آپ کو انہی ادیبوں کی داستان سنائی جائے گی جنہوں نے محدود دائروں میں ہمیں قید کیا، جن کی تمام تر گفتگو گھر کی چار دیواری میں تشکیل دینے والے بے مقصد روئیوں سے باہر ہی نہیں نکل پائی۔ اگر کسی نے فکر حریت دینا بھی چاہا تو ہمیں اس میں ملحد، کمیونسٹ یا غدار کا چہرہ دکھائی دیا۔ اور یوں ہمارے قیمتی اکہتر برس نسیم حجازی و اوریا مقبول جیسے دانشور کھا گئے۔

خیر، دوسری انتہا پر فائز جدید مفکرین کا حال بھی کچھ الگ نہیں۔ کیونکہ وہ جب مغرب و مشرق کی تہذیب کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم مشرق زادوں کو راکھ پہ بیٹھا دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا بیانیہ ترتیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے ہم مزید احساس کمتری کا شکار ہوں۔ ان کی تحریر سے یہی سامنے آتا ہے کے مغرب ایک بہترین سماجی نظام تشکیل دے چکا، سو ان کی تہذیب و ثقافت قابل تقلید ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کے ہم کاہل اور سُست لوگ مشرق کی جھوٹی سچائیوں سے باہر نکلیں اور اہل مغرب سے سائنس و ٹیکنالوجی کے علوم سیکھنے کے ساتھ ساتھ سماجی ڈھانچہ بھی انہی کے اصولوں پر استوار کریں۔

اس بیانیے سے یوں لگتا ہے جیسے دنیا میں پھیلی تمام تہذیبی برائیوں کی بنیادی وجہ مشرق کا سماجی ڈھانچہ، اور اس کی تہذیب ہے۔ یہاں ان متفکرین کی منافقات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایسے کے، تہذیب و ثقافت کو سمجھاتے ہوئے تو وہ معاشرتی نظام کو جوڑ دیتے ہیں مگر جب موجودہ دور کا تجزیہ کرنے کی باری آتی ہے تو وہ مغرب کے مشرق کی گھریلو زندگی، ثقافتی سرگرمیوں زبان و مکان کو انفرادی سطح پر موازنہ کرتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مغرب کے سماجی نظام نے وہاں کے باسیوں میں اس قدر بھوک پیدا کی، کہ انہوں نے تمام دنیا کو اپنی کالونیوں میں تبدیل کیا۔ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز، کا مقولہ مغرب کی ایجاد ہے۔ آج تیسری دنیا کے ممالک کی پسماندگی میں جہاں ان کی جہالت ایک جرم ہے، تو وہیں اہل مغرب کا استحصال بھی برابر کا قصوروار ہے۔

ہم مشرقی ہزار برائیوں کا منبع ہو سکتے ہیں، مگر ہمیں اس بات کا فخر ہے کے ہمارے ہاتھوں پر انسانیت کے خون نشان نہیں۔ ہم ہندوستانیوں کی لوٹی ہوئی دولت سے آج بھی برطانوی شاہی خاندان عیاشی کر سکتا ہے مگر ہمارے چہرے پہ پہلی و دوسری جنگ عظیم کی لاکھوں جانوں کے داغ نہیں۔ ہم مشرقیوں کا خاندانی نظام بیشک ہمیں کاہل و سست بناتا ہے مگر سونا اگلتی بنگال کی دھرتی پہ قحط مسلط کرنے کا سہرا فرنگیوں ہی کے سر ہے۔

اہل مغرب یقیناً اس وقت دنیا کی امامت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کے انسانیت اپنے پست ترین معیارات پر اس سے قبل فائز نہیں ہوئی۔ آج اگر ان کے پاس سائنسی ایجادات اور ہمارے پاس جہادی ہیں تو اس پر تحقیق کر کے دیکھ لیں، مشرق و مغرب میں پھیلے ان تمام انتہا پسندوں کی ڈوریں آپ کو ان کے نام نہاد مخالفین تک ہی لے جائیں گیں۔

ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کے آج مشرقی اپنے تاریک ترین دور سے گزر رہے ہیں، ہمارا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ ہمارے قومی ادیب ہمیں کنویں کا مینڈک بنانا چاہتے ہیں تو ترقی پسند لکھاری ہمیں مغربی۔ ان سب میں گھن چکر بنتی ہے ہمارے بھولے بھالے عوام جو بے شعور تو ہیں لیکن چند کتابیں پڑھ کر مفکر بننے والوں سے کہیں بہتر۔

ضرورت اس امر کی ہے کے ہم اکیسویں صدی کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیں، جس کی بنیاد وہی اصول ہونے چاہئیں جو اشوکا اعظم سے لے کر مغل اعظم تک اور اس کے بھی بعد آنے والے عمرانیات کے عظیم سائنسدانوں نے وضع کیے۔ ہمارے دانشوروں کو ”داس کیپیٹل“ سے پہلے شاہ ولی اللہ کی حجتہ اللہ البالغہ سے استفادہ کرنا ہو گا۔ اور پھر ہمارے معاشروں کے اختلافات اور تنوع کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں کا طرز معاشرت تبدیل کرنا ہوگا۔

ہم اپنی تہذیب و ثقافت سے چمٹے رہیں یا مغرب کی اقدار یہاں درآمد کریں تباہی ہمارا مقدر بنے گی۔ تباہی کے اس طوفان کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں مغرب سے جدید ترقیات سیکھنا ہوں گیں، جس پر یقیناً ہم ان کے شکر گزار ہوں گے، مگر ساتھ ہی ساتھ ہمیں نیا سماجی نظام تشکیل دیتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی کرنا ہو گا۔

خدا ہم مشرقی و مغربی لوگوں کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).