ن لیگ ’پیپلز پارٹی اتحاد اور حکومت؟


ملک کی مجموعی صورتحال اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اب مشکلات کے بھنور سے نکلتی جا رہی ہے عمران خان کی حکومت کو جس طرح معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اپنی سیاسی چالوں سے اس نئی حکومت کو چاروں شانے چت کر دے گی۔ لیکن عمران خان کی حکومت اپوزیشن کی امیدوں کے بر عکس آج بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے قائدین اور دیگر کرپٹ افراد کے خلاف احتساب کا شکنجہ کسے ہوئے ہے جس کے باعث ملک دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سیاست کارنر ہو کر رہ گئی ہے۔

اب ان دونوں جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد جو وجود میں آیا ہے اس اتحاد کا یک نکاتی ایجنڈا صرف یہ ہے کہ حکومت پر اتنا سیاسی دباؤ بڑھایا جائے تاکہ کسی طرح بھی جاری احتساب کے عمل سے ڈیل یا ڈھیل کی صورت حکومت کے ساتھ مفاہمت ہو جائے۔ لیکن حکومت کی جانب سے بار بار اس مؤقف کو بلا تردید دہرایا جا رہا ہے کہ کرپشن و بدعنوانی میں ملوث کرپٹ افراد کو احتساب میں کوئی رعایت نہیں دی جائے گی اب احتساب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والا وقت آشکار کرے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان بڑے غیر متزلزل ارادے کے مالک ہیں اور وہ متعدد بار بحیثیت وزیر اعظم اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ اس ملک میں کسی بھی کرپٹ افراد کو نہیں چھوڑا جائے گا اور وہ اب تک اپنی اس بات پر قائم نظر آرہے ہیں۔ بد قسمتی سے ملک میں جو سیاست رائج ہے اس میں دولت کا عنصر غالب ہے جس کی وجہ سے سابقہ حکومتوں کے دور حکمرانی میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کے ریاستی اداروں میں سیاسی سفارش ، اقرباء پروری اور رشوت کو فروغ دیا گیا۔ ملک عزیز کا شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو ان کی ہدایات پر سرنگوں نہ رہا ہو۔

ملک میں جو آج مہنگائی ، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ ، اقرباء پروری، معاشی زبوں حالی، رشوت و سفارش، اداروں کی بدحالی، انصاف کی عدم دستیابی جیسے مسائل دستک دے رہے ہیں یہ نئی حکومت کے تحفے نہیں بلکہ یہ سابقہ حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، لگژری گاڑیوں کے بے دریغ استعمال ، وی وی آئی پی پروٹوکول، بیرون ممالک میں جائیدادیں، عالمی مالیاتی اداروں سے قرض در قرض کی طویل فہرست کے بدولت موجود ہیں۔ پاناما اسکینڈل نے پاکستان کے سیاسی قائدین کو عالمی میڈیا میں جو پذیرائی بخشی وہ بھی سب کے سامنے ہیں جن کو بحری قزاق سے تشبیہ دی گئی۔

ملک میں کرپشن و بد عنوانی کی ایسی ایسی ہولناک مثالیں موجود ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتے ہیں ان کی بے دریغ کرپشن و بدعنوانی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک میں پیدا ہونیوالا نومولود بچہ بھی سوا لاکھ کا مقروض ہے اس کے باوجود روٹی ، کپڑا اور مکان، پاکستان کھپے اور بدلتا پاکستان کے نعروں کی موجد سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی سیاسی واراثت بچانے کے لئے اپنے ادوار کو ترقی و خوشحالی کا دور گردانتے نظر آتے ہیں ان حکومتوں کا کیا دھرا آج عوام بھگت رہی ہے۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت اس ملک میں ہونے والی کرپشن و بدعنوانی میں ملوث افراد سے پائی پائی کا حساب بے رحم احتساب کے ذریعے لے تاکہ عوام جان سکے کہ ان کی قومی دولت اور وسائل کو کیسے پرایا مال سمجھ کر بے دریغ لوٹا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا نیا سیاسی اتحاد صرف کرپشن بچاؤ مہم سے زیادہ کچھ نہیں اس اتحاد کا حال بھی مجھے اس حکومت کے خلاف بننے والے پچھلے سیاسی اتحادوں سے مختلف نظر نہیں آرہا وقت اور حالات جلد اس کی نقاب کشائی کر دیں گے۔

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ادوار کا جائزہ لے لیں انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے پیمانے پر قرض حاصل کیے اور ملک میں ان قرضوں کے عوض کوئی بھی میگا پراجیکٹ مکمل نہیں کیا یہاں تک کہ موٹر وے طرح کے اگر پراجیکٹ مکمل ہوئے بھی تو ان کو بھی مزید قرض کے لئے گروی رکھوا دیا گیا اور عوام کی آنکھوں میں ترقی کے نقارے بجا کر دھول جھونکتے رہے۔ ڈیل یا ڈھیل کے لئے ہر ممکن راستہ تلاش کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے عید کے بعد جس احتجاجی تحریک کے چلانے کا اعلان کیا تھا وہ قبل از وقت ہی دم توڑ چکی ہے کیونکہ آصف زرداری ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں۔

زرداری کا تحریک کی قیادت مریم اور بلاول کو دینے کا بیانیہ ن لیگ میں پھوٹ ڈالنے کے مترادف ہے کیونکہ اکثر ن لیگی رہنماؤں کو اس تحریک میں حمزہ شہباز کو نظر انداز کرنا قبول نہیں ہو گا۔ پہلے ہی ن لیگ کے مبہم بیانیے اور عہدوں کی تقسیم کے حوالے سے رہنماؤں اور کارکنان میں اضطراب پایا جا رہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو مستقبل میں ن لیگ حروف تہجی میں تقسیم ہو کر رہ جائے گی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو کہ اقتدار اور مفاداتی سیاست کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی نورا کشتی کر کے عوام کو بے وقوف بناتی رہی ہیں اب احتساب کا شکنجہ جب ان دونوں جماعتوں کے قائدین کی گرد کسا گیا تو یہ دونوں جماعتیں ایک بار پھر میثاق جمہوریت کی آڑ میں متحد ہو کر اپنے آپ کو احتساب سے بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔

لیکن شاید اب ملک میں حقیقی احتساب کا آغاز ہو چکا ہے۔ سول ملٹری قیادت بھی اس بات پر متحد ہو کر پر عزم دکھائی دے رہی ہے کہ کرپٹ افراد کا بلا امتیاز احتساب کیا جائے گا۔ ملکی معشیت کو مستحکم کرنے کے لئے نہ صرف حکومت دن رات ایک کیے ہوئے ہے بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دفاعی بجٹ میں کمی کے فیصلے کے اعلان نے یہ ثابت کر دیا کہ اس ملک کے روشن مستقبل کے لئے سول ملٹری قیادت ایک صفحہ پر متحد ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب حکومت اپوزیشن کو کوئی ایسا ایشو فراہم نہیں کرے گی جس کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی سیاسی ڈگڈی بجا سکیں۔

حکومت اب صوبوں میں جدید اصلاحات متعارف کروا رہی ہے پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام بھی تشکیل دے دیا گیا جس کے نتائج کے ریلف سے عام آدمی بھی مستفید ہو گا۔ عام آدمی کو کسی نظام سے نہیں، اپنے مسائل کے حل سے غرض ہوتی ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ اصلاحات کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلف فراہم کیا جائے ملکی سیاست کی شطرنج پر چالیں دن بدن بدلتی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن مہنگائی پر صرف بیانات تک محدود ہے جس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سیاست آئی سی یو میں اپنی سانسیں گن رہی ہے اپوزیشن صرف سافٹ کارنر کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے جس کا نتیجہ موجودہ حالات کے تناظر میں صفر نظر آرہا ہے۔

احتساب رکنے والا نہیں۔ بہت سے بیوروکریٹ پر بھی ہاتھ ڈالنے کی تیاری کی جا چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی پہلی تقریر کو یاد کیجیئے انہوں نے کہا تھا کہ جب کرپٹ افراد پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو یہ لوگ بہت شور کریں گے جمہوریت ، ملک اور اس کی سلامتی خطرے میں ڈالنے کی باتیں ہوں گی عمران خان کی پہلی تقریر کے تناظر میں دیکھ لیں کہ کیا موجودہ حالات اس تقریر کے عکاس نہیں ہیں۔ احتساب کے عمل کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہو رہا ہے ملک میں جس نے بھی کرپشن و بدعنوانی کے ذریعے اس ملک کی جڑیں کرید کر اسے کھوکھلا کیا وہ اب اپنے دن گننا شروع کر دیں کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے جس نے جو بویا وہی کاٹے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).