زندگی میں ایک بار تنویر احمد عطاری سے ضرور ملیئے


جگنو اس لیے بھی اچھے ہوتے ہیں کہ یہ اندھیرے میں دور سے نظر آتے ہیں اور دور تک نظر آتے ہیں۔ تنویر احمد عطاری بھی ایک جگنو کی مانند ہیں جو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں علم اور تحقیق کی روشنی بکھیر کر جمود زدہ معاشرے میں اپنے ہونے کا یقین دلا رہے ہیں۔ تنویر احمد کو آپ میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ہوں گے۔ اس لئے کہ وہ لاہور اور اسلام آباد نہیں، ایک چھوٹے سے شہر اوچ شریف میں رہتے ہیں۔ ہم جس تنویر احمد عطاری کو جانتے ہیں، سادگی و شائستگی ان کی ہم نشیں، حسن اخلاق ان کے ماتھے کا جھومر، سنت مصطفیٰ ﷺ ان کے ہمرکاب، عشق مصطفیٰ ﷺ ان کا پیش رو، ادب ان کے رود خیال کے ارد گرد خیمہ زن، معانی و بیان ان کے لوح فکر کی تحریریں، تدریس ان کے مطلع معارف کا ہلال، علم حدیث ان کی کشت افکار پر برسنے والی بارش اور تحقیق ان کے لئے نسیم شوق ہے۔

گزشتہ دنوں ہمیں ان کے غریب خانہ پر جانے کا اتفاق ہوا تو کمرے میں علم القرآن، قرات و تجوید، علم تفسیر، علم حدیث، علم اصول حدیث، تخریج، فقہ، اصول فقہ، علم الکلام، علم العقائد، علم البیان، علم المعانی، علم المناظرہ، فتویٰ نویسی، سیرت نگاری، فلسفہ، منطق، تنقیدات، فضائل و مناقب، ادب، شاعری، نثر نگاری، حاشیہ نگاری، اسماء الرجال، علم الاخلاق، روحانیت، تصوف، سلوک، تاریخ و سیر، صرف، نحو، بدیع، علم الانساب، علم الفرائض، پندو نصائح، مکتوبات، ملفوظات، خطبات، جغرافیہ، تجارت، معاشرت، ہیئت، فلکیات، نجوم، جفر، ارضیات، تعلیم و تعلم، علم الحساب، تعویذات، طب، ادویات، لسانیات، رسم الخط، جرح و تعدیل، اورادو اذکار، ایمانیات، تکسیر، توقیت، علم ریاضی، بنکاری، زراعت، تاریخ گوئی، سیاسیات، علم الاوقات، موسیقی و ردِّ موسیقی، قانون، تحقیقات، علم الادیان، ماحولیات، تعبیر، عروض و قوانی، علم البحر، علم الاوزان، حکمت، نقد ونظر، علم المناظرہ، نفسیات، صحافت، عملیات، علم الاحکام، عمرانیات، علم لغت، استعارہ اور دیگر اہم موضوعات پر ہزاروں کتابیں دیکھ کر تو ہماری عقل دنگ رہ گئی۔

یہ دیکھ کر بھی حیرت دو چند ہو گئی کہ ان کے دو لیپ ٹاپس میں 1300 جی بی ڈیٹا فقط پی ڈی ایف فارمیٹ میں تین لاکھ سے زائد کتب پر مشتمل ہے۔ ان کتب میں تصوف و سلوک پر مشتمل نایاب مخطوطہ جات کی تعداد تقریبا تین ہزار سے اوپر ہے۔ اتنا عظیم علمی ذخیرہ اوچ شریف میں شاید ہی کسی پاس ہو۔ کم عمری بھی تنویر احمد عطاری کو علمی دنیا کی جادہ پیمائی سے روک نہ سکی۔ ایک بیدار مغز مفتی اور راست فکر مصلح کی حیثیت سے تنویر احمد عطاری کی ذات علمی دنیا میں آفتاب نصف النہار کی طرح رخشندہ ہے۔

25 اپریل 1989 ء کو اوچ شریف میں پیدا ہونے والے تنویر احمد عطاری کے والد محمد اجمل سیال ایک بڑھئی ہیں۔ تنویر احمد عطاری نے درجہ سوئم تک تعلیم گورنمنٹ مسجد مکتب سکول عزیز العلوم سے حاصل کی۔ بعد ازاں درجہ ہشتم تک گورنمنٹ ہائی سکول اوچ شریف کے اساتذہ سے کسب فیض حاصل کیا۔ مدرسہ سعیدیہ رضویہ میں مولانا غلام اکبر فریدی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ جنہوں نے کمال مہارت کے ساتھ محبت اور توجہ سے قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم اور فارسی کتب گلستاں بوستاں کے اسباق پڑھائے۔ 2003 ء میں امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری کے دست پر بیعت ہوئے۔ 2004 ء میں انہوں نے درس نظامی کے لئے قرآن و سنت کی عالمگیر تنظیم دعوت اسلامی کے جامعۃ المدینہ میں داخلہ لیا جہاں سند تکمیل کے ساتھ روایت حدیث کے لیے سند اتصال بھی حاصل کی۔

2012 ء میں درس نظامی عالم کورس سے فراغت حاصل کی اور دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز کراچی میں امیر اہلسنت مولانا الیاس عطار قادری کی ہدایات پر چھ سو طلباء پر مشتمل ادارے میں اول مدرس کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ تنظیم المدارس کے تحت دوسالہ تجوید و قرات کورس جبکہ 2017 ء میں جامعہ قادریہ فیصل آباد سے دوسالہ تخصص فی الفقہ (مفتی کورس) پاس کیا۔ 2018 ء میں انہوں نے رفاہ یونیورسٹی فیصل آباد سے اسلامک سٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔

ان کا ایم فل کا مقالہ ”جنات کی حقیت (برصغیر کے اہم مذاہب) ایک تجزیاتی مطالعہ“ کے عنوان پر مشتمل تھا۔ آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے پی ایچ۔ ڈی کی تیاری کے ساتھ ساتھ اوچ شریف میں دعوت اسلامی کے امور کی دیکھ بھال، جامعۃ المدینہ آن لائن میں درس نظامی کی منتہی کتب کی درس و تدریس اور جامع مسجد سبزی منڈی میں خطیب کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔

علم عروض کا باقاعدہ طالب علم رہنے اور فی البدیہہ شعر کہنے کی عمدہ صلاحیت رکھنے کے باوصف آج تک خود کو بطور شاعر کہنے اور کہلوانے میں تنویر احمد عطاری کو تامل ہے۔ شعر گوئی میں ”مسکی“ تخلص اختیار کیا۔ ان کا انداز تحریر پختہ ہے اور انہیں سلیقہ ہے کہ موضوع کی مناسبت سے عمدہ الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر استعمال کر سکیں۔ ان کے شعر گوئی کے اعلی ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اوچ شریف کی تہذیب و تمدن، ثقافت، روحانیت اور اولیاء کرام کی شان پر ان کے ایک ہزار اشعار کا مجموعہ طباعت کا منتظر ہے، جس کا مطلع ہے۔

کیسے میں بھول جاوں اے اوچ مقام تیرا

چرچے جو تھے زمیں پر وہ خوب نام تیرا

2009 ء میں تنویر احمد عطاری کی درود پاک پر ایک تحقیقی کتاب ”صلوا علی الحبیب“ منصہ شہود پر آئی۔ جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مفتی کورس میں پڑھائی جانے والی کتاب ”عقود رسم المفتی“ کی شرح بھی لکھ چکے ہیں۔ ان کے کلام میں سے چند اشعار قارئین ”ہم سب“ کے حسن ذوق و ندرت خیال کی نذر

نسیمِ کیف و مستی آ چلیں طیبہ کی گلیوں میں

سکونِ دل ملے گا واں قرارِ چشم بھی وافر

٭٭٭

ان آنسؤوں کی مستی کیف و خمار واللہ!

اک آن میں ہیں قطرہ اک آن میں یہ قلزم

٭٭٭

واللہ داد دے دی طرزِ سخن تھا ایسا

ڈوبا تھا بے خودی میں سو واہ واہ کی

مری اس ادا پہ فورا فتوی لگا دیا

تجھے کیا خبر ہو شب بھر مری آہ آہ کی

٭٭٭

تنویر احمد عطاری کے سینہ معرفت گنجینہ میں روز اول ہی سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے بھرپور کام کرنے کا جذبہ موجزن ہے۔ اس عظیم مقصد کے لئے انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی ہی سے منصوبہ بندی شروع کر دی تھی اور انتہائی نامساعد حالات میں اپنے کارواں کو سوئے منزل رواں دواں کیا۔ مشکلات کے خوف سے بے نیاز ہو کر وہ ایک علمی و فکری انقلاب کا تانا بانا تیار کرنے کے لئے مسند تدریس پر علم و تدریس کے جواہر لٹا رہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے علم اور حلم میں بے کنار برکتیں عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).