ساڈا حق ایتھے رکھ


حقوق و فرائض کی جنگ میں ہم ہمیشہ حقوق یاد رکھتے ہیں اور فرائض بھول جاتے ہیں۔ ہمیں یہ ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ ہمارے حقوق کیا ہیں۔ لیکن حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اُوپر کچھ فرائض بھی ہیں۔ حقوق و فرائض کی جنگ بہت پرانی ہے۔ ہر انسان کو اپنے حقوق ازبر ہیں۔ جسے دیکھو یہی کہتا ہے ہمیں ہمارا حق نہیں ملا یا ہم اپنا حق ہی مانگ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اولاد بھی حقوق کے حصول کے لئے ماں باپ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔

وہ گھر جسے ماں باپ نے پیسہ پیسہ جوڑ کر، جانے کتنی خواہشوں کو قربان کر کے بچوں کے لئے بنایا ہوتا ہے۔ بچے اُسی گھر کو بیچ کر اپنا شرعی حق لے کر علیحدہ ہونے کا مطالبہ کرتیں ہیں۔ اور بنا کسی لگی لپٹی کے جب ماں باپ کو کہتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے جو شریعت نے رکھا ہے۔ اور آپ نے ہمارے لئے کیا کیا ہے۔ اس وقت ماں باپ کے دل پر کیا بیتتی ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا۔ بچے کی پیدائش سے لے کر اُس کی جوانی تک، تعلیم و تربیت، کاروبار میں معاونت، شادی اور پھر بچو ں کے بچوں پر خرچ کرنا یہ سب کرنا والدین کا فرض ہے اور ہمارا حق۔

اولاد کو بس اپنا حق یاد ہوتا ہے اپنا فرض نہیں جو اُن کے ذمہ بھی شریعت ہی نے لگا رکھا ہے۔ اسی طرح بیوی کو یہ تو یاد ہوتا ہے کہ اُس کے خاوند پر اُس کے نان ونفقہ کی تمام ذمہ داری ہے۔ ہر سہولت مہیا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔ لیکن جو حقوق اس کے ذمہ ہیں وہ بھول جاتی ہے۔ موجودہ دور میں تو یہ رواج ہوگیا ہے کہ جی عورت کے سر کوئی ذمہ داری نہیں۔ حتٰی کہ خواتین کو دیکھا ہے کہ وہ سارا دن ٹی وی اور ٹیلیفون پر بزی رہتی ہیں۔

اور مرد کی گھر واپسی پر جھگڑے کی ابتدا ہوجاتی ہے کہ مجھے سہولیات فراہم کرنا تمھارا حق ہے۔ دن کے تھکے ہارے مرد کو کھانا بھی باہر سے لانا پڑتا ہے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ بہت ساری خواتین نے مردوں کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے اور اُن کو حرام کمانے، ناجائز کمانے کے لئے مجبور کر رہی ہیں۔ اور وہ بیچارے خاتونِ خانہ کو خوش کرنے کے لئے ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو کرپشن کی فراوانی ہے اس میں کہیں نہ کہیں خواتین کی بے جا فرمائشوں کا بھی ہاتھ ہے۔

اور پھر اگر مرد احتساب والوں کی نظر میں آجائے تو ان کے اہل و عیا ل تو بچ جاتے ہیں البتہ اکثر مرد مال واپس کرنے کی بجائے خود کشی کرلیتے ہیں۔ جو خود کشی نہیں کرتے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی کا سفر تمام کرتے ہیں اور ان کے گھر والے ان کے اکٹھے کیے گئے مال پر عیاشی۔ یہ لوگ حقوق نبھانے کے چکر میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ کسی کرپشن کیس میں پھنسے آدمی کی بیوی کو بھی اس کے ساتھ ہی لاقب میں رکھنا چاہیے۔

جس کی لا محدود خواہشات یہ دن دکھاتی ہیں۔ بیشتر خواتین فرائض سے خود کو بری سمجھتی ہیں۔ اب تو خواتین کے ایک گروہ نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اُس پر تو کھانا پکانے، گھر کو سنوارنے کی ذمہ داری بھی نہیں۔ اُس کو اسلام نے ہر قسم کی ذمہ داری سے آزاد رکھا ہے۔ تو بات ہورہی تھی حقوق و فرائض کی۔ اسی طرح بحثیت پوری قوم ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ ہم پر کچھ فرض نہیں۔ سب فرض حکومت کے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے سہولیات فراہم کرنا۔

بجلی، صحت، تعلیم، صفائی سب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی اچھی نہیں، صحت کی سہولت میسر ہے ہمیں اور نہ تعلیم کی، صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، لوگ بے روزگار ہیں، بجلی غائب ہے۔ افسران کرپٹ ہیں، رشوت کے بغیر کام نہیں کرتے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم سرکار سے اپنا حق مانگیں۔ یہ مطالبات کرتے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بطور شہری ہمارے اوپر بھی بہت سارے فرائض ہیں۔ کیا ہم۔

نے بحثیت قوم، انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے فرائض ادا کیے؟ کسی شہری کے گھر آنے والا پانی کا پائپ پھٹ جائے تو اُس کو ٹھیک کروانے کے لئے ہم گلی تو توڑ دیتے ہیں۔ لیکن پائپ کی مرمت کے بعد ٹوٹی ہوئی گلی ویسی ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ کہ یہ کام حکومت کا ہے۔ جمعدار گلی صاف کر کے جاتا ہے تو ہمیں کچرا پھنکنا یاد آتا ہے، سڑک سے گزرتے ہوئے کھانے پینے کی اشیئا کے خالی ریپر، خالی مشروبات کے خالی ٹن پھینکنا ہمارا قومی وتیرہ ہے، جگہ جگہ گند پھیلانا ہمارا قومی فرض ہے، کسی پارک میں بیٹھ کر پیپسی کی خالی بوتل کو کوڑا دان میں پھینکنے کی بجائے دور پھنکنا ہمارا قومی مشغلہ ہے، بنا ضرورت کے پنکھے، لائیٹیں چلتی چھوڑ دینا، بجلی ضائع کرنا، پانی کی ٹونٹیاں کھلی چھوڑنا، چولہے کو بلا ضرورت جلتا چھوڑ دینا تا کہ دوسری بار چولہا جلانے کی زحمت سے بچا جائے یہ سب بحثیت قوم ہماری اجتماعی عادات میں سے ہے اور ہم اس پر کنٹرول نہیں کر سکتے اور ہم کنٹرول کریں بھی کیوں ہم بل ادا کرتے ہیں سو ہم جیسے چاہے چیزوں کا استعمال کریں۔

ہمارا شکوہ تو بس یہ ہے کہ حکومت بجلی فراہم نہیں کرتی۔ پانی کی ٹونٹیوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں پانی ضائع کرتے ہیں تو بھی کوئی بات نہیں۔ اگر آپ کا کام نہیں ہو رہا تو ہر گز پریشان نہ ہوں اپنی فائل کے اندر چند لال، ہرے نوٹ رکھ کر کلرک کو دیجیئے پھر دیکھیے سالوں سے پھنسا کام منٹوں میں حل ہو جائے گا اس کو رُشوت کا نام ہر گز نہیں دینا یہ تو چائے پانی کا خرچہ ہے البتہ دفتر سے باہر آکر شور ڈالنا مت بھولئے کہ جناب سب سرکاری افسر راشی ہیں، ہڈ حرام ہیں۔

اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس کے لئے ایکسائز کے افسر کو شاندار ہوٹل میں کھانے پر بلائیے اور وہیں بیٹھ کر دس سال کا معاہدہ کر لیں کہ اس نے کتنے میں کام کرنا ہے اس طرح بہت بچت ہوگی کہ آپ کو بار بار ایکسائز کے دفتر کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے دس سال تک آپ کو ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا اور راوی چین ہی چین لکھے گا۔ اگر ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم کو کسی پراجیکٹ میں استعمال کیا جانا ہے، اس سے بیروزگاری کو دور کیا جا سکتا ہے اس سے آپ کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سراسر حکومت کا فرض ہے اور ہمارا حق۔

ہمارا کام تو صرف اپنا فائدہ سوچنا ہے۔ سو جسے بارہ ہزار بھی سالانہ ٹیکس آتا ہے وہ بھی دس بارہ ہزار رشوت کے بھر کر پانچ دس سال کے لئے ٹیکس سے استشنیٰ حاصل کرلیں۔ ہمیں اک بڑا شکوہ ہے کہ صحت کی سہولیات بہتر میسر نہیں۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ اگر ہم اپنے کھانے پینے کو حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کر لیں تو ہم بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ اگر اس بات پر پہلے غور نہیں کیا تو مستقبل میں بھی غور کرنے کی ضرورت نہیں۔

حکومت جو ٹی وی پر اشتہار دے دے کر تھک گئی کہ پانی ابال کر پیئں تو اس پر بھی عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر پانی ابال کر نہ پینے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ادویات کی مفت فراہمی حکومت کا فرض ہے۔ کِیا کبھی سب نے انفرادی طور پر سوچا ہے کہ اُس کے ذمہ جو فرائض ہیں وہ اس نے کس حد تک ادا کیے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک سے بیروزگاری دور ہو تو ٹیکس ادا کریں۔ اپنے گلی محلوں، پارک کو صاف رکھنا، ماحول کو صاف ستھرا رکھنا، خود کو بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفطانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنا، بجلی و پانی کی بچت کرنا، رشوت دے کر اپنا کام کروانے سے خود کو روکنا بھی ہمار ے فرائض میں شامل ہے لیکن اپنے فرض کوئی یاد نہیں رکھتا۔ فرائض یاد رکھنے کی ضرورت بھی نہیں بس اپنا حق یاد رکھیں۔ تا ہم ایک ضروری بات فرائض ادا کرنا ضروری نہیں۔ بس حق یاد رکھیں اور مطالبہ کرتے رہیں ”ساڈا حق ایتھے رکھ“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).