ناکافی سہولیات، خراب سڑکیں اور مہنگے دام ،کیا ایسے بڑھے گی ملک میں سیاحت؟


رواں برس عیدالفطر کے موقعے پر پاکستانی عوام نے تقریباً ایک ہفتے کی چھٹی منائی۔ منگل سے شروع ہونے والی تعطیلات کا اختتام اتوار کو ہوا اور ان چھ دنوں میں ہر برس کی طرح لاکھوں افراد نے تفریحی مقامات کا رخ بھی کیا۔

ان میں جہاں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کی منزل اُن کے شہر میں واقع تفریحی مقامات تھے وہیں ایسے افراد کی تعداد بھی کم نہ تھی جنھوں نے طویل چھٹی کو غنیمت جانتے ہوئے پُرفضا مقامات کا رخ کر لیا۔

لوگوں کے بڑی تعداد میں محدود مقامات کا رخ کرنے کا نتیجہ ٹریفک جام اور رہائش کے مقامات میں کمی کی صورت میں نکلا اور ہر برس کی طرح لوگوں کی بڑی تعداد نے رات اپنی گاڑیوں میں گزاریں۔ مگر جن خوش قسمت افراد کو رہائش ملی تو وہ بھی سونے کے دام پر تھی۔

یہ بھی پڑھیے!

شمالی علاقہ جات کیلیے اصلاحات

شمالی علاقہ جات تاریخ خطرے میں

کاغان کی طلسماتی جھیلوں کی رونقیں ماند

جب برف باری میں تفریح ایک بھیانک خواب بن گئی

عید کے موقع پر سیاحوں کی مقبول منزلوں میں جہاں پنجاب کے پرفضا پہاڑی مقام مری اور نتھیا گلی شامل تھے وہیں ایک بہت بڑی تعداد نے خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں کا بھی رخ کیا۔

نتیجہ یہ تھا کہ وہ مری ایکسپریس وے ہو، عید سے فوراً پہلے کھلنے والی سوات موٹر وے، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے ہوں یا پھر شاہراہِ قراقرم ان تمام سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگنے لگیں اور منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوتا گیا۔ ایک بڑی تعداد کو اس سفر کے دوران ہی شب بسری کے لیے جگہ ڈھونڈنی پڑی۔

تفریحی مقامات کی صورتحال

اس برس عید کے موقعے پر خیبرپحتونخوا کی حکومت نے سیاحوں کی سہولت کے لیے خصوصی انتظامات کا دعویٰ کیا تھا اور حکومت کا کہنا ہے کہ اس برس 20 لاکھ افراد نے صوبے میں مختلف پرفضا مقامات کا رخ کیا۔

سوات اس برس سیر و تفریح کے شوقین افراد میں اس لیے زیادہ مقبول رہا کیونکہ وہاں تک رسائی کے لیے سوات موٹر وے کو عید سے قبل کھول دیا گیا اور جس کا نتیجہ مالاکنڈ کی انتظامیہ کے مطابق تقریباً ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں اور 10 لاکھ افراد کی آمد کی صورت میں نکلا۔

گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق چار لاکھ سیاح گلیات کے علاقے میں آئے جبکہ کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق وہاں آنے والے افراد کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ تھی۔

ایس پی ٹریفک پولیس ایبٹ آباد اشتیاق خان کے مطابق عید کی چھٹیوں کے دوران روزانہ تقریباً ایک لاکھ گاڑی ایبٹ آباد کی حدود میں داخل ہوئی جس میں سے 20 ہزار کے قریب نے گلیات کا رخ کیا جبکہ بقیہ میں سے اکثریت کی منزل شمالی علاقہ جات تھی۔

مری ٹریفک پولیس کے مطابق ان چھٹیوں کے دوران 85 ہزار سے زیادہ گاڑیاں مری کی حدود میں داخل ہوئیں اور ان میں سے 60 ہزار گاڑیاں سیر و تفریح کے بعد راولپنڈی، اسلام آباد اور گلیات، ایبٹ آباد کی طرف واپس گئیں۔

ہوش ربا کرایے

پاکستان کے ان تفریحی مقامات پر سیاحوں کی تعداد کے تناسب سے رہائش گاہوں کی عدم موجودگی کا نتیجہ ایسے ہوش ربا کرایوں کی شکل میں برآمد ہوا جن کی ادائیگی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے بس کی بات نہ تھی۔

ناران اور کاغان کے درمیانے اور چھوٹے درجے کے ہوٹلوں کا کرایہ سات ہزار سے شروع ہو کر پہلے 15 ہزار اور عید کے دوسرے اور تیسرے دن 20 ہزار تک چلا گیا جبکہ بڑے ہوٹل اس دوران 15 ہزار سے لے کر 30 ہزار فی رات کرایہ لیتے رہے۔

یہاں تک کہ کیمپنگ کے لیے ٹینٹ اور جگہ کا کرایہ بھی تین ہزار سے لے کر دس ہزار روپے تک رہا۔

سوات سے مقامی ذرائع کے مطابق وہاں بھی درمیانے اور چھوٹے درجے کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاوسز کا عید کی چھٹیوں میں کرایہ چار ہزار سے لے کر چھ ہزار روپیہ تک رہا جبکہ بڑے اور لگژری ہوٹل یومیہ آٹھ ہزار سے 20 ہزار روپیہ تک کرایہ وصول کرتے رہے۔

مری اور گلیات کے علاقوں میں بھی صورتحال زیادہ مختلف نہ تھی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ایک رات قیام کا خرچ پانچ ہزار سے 15 ہزار جبکہ بڑے ہوٹلوں میں 15 سے 30 ہزار روپے تک رہا۔

تاہم ناران، کاغان، مری اور سوات کی ہوٹل ایسوسی ایشنوں کے مطابق عید کے موقع پر کسی کو بھی سیاحوں سے زیادہ رقم وصول کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

مری و گلیات ہوٹل ایسوسی ایشن کے نائب صدر راجہ شہزاد کے مطابق مری و گلیات میں ایک ہزار کے لگ بھگ ہوٹل و گیسٹ ہاوسز موجود ہیں جو کہ تمام کے تمام بک تھے اور ان میں سنیچر کی شام تک رہائش کی گنجائش موجود نہیں تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مری و گلیات کے لوگوں نے ذاتی طور پر اپنے مکانات میں بھی سیاحوں کو بطور پے انگ گیسٹ رکھنے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اور اس وجہ سے آنے والے سیاحوں کو اس مرتبہ رہائش کا مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔

عید کے موقع پر سیاحوں میں جہاں بڑی تعداد میں ایسے لوگ تھے جو ہوٹلوں یا گیسٹ ہاؤسز میں بکنگ کروا کر چلے تھے وہیں وہ نوجوان بھی تھے جو ایسے کسی انتظام کے بغیر نکل آئے تھے۔

ان افراد نے جہاں کھلی جگہ ملی وہاں پر عارضی ڈیرے ڈال لیے۔ لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے ضمیر آفریدی ایسے ہی ایک گروپ کا حصہ تھے جو چاند رات کو ہی لنڈی کوتل سے ناران کی جانب چل پڑا تھا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ اگر دیر کی تو یہ کھلی جگہ بھی نہیں مل سکے گی۔

ضمیر آفریدی کے مطابق ان کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوا اور عید کے دو دنوں میں کاغان کی سیر کے بعد وہ اس وقت واپس روانہ ہو گئے جب سیاحوں کی بڑی تعداد نے وادی کاغان پہنچنا شروع کر دیا تھا۔

ناران، کاغان ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر مطیع الرحمان کے مطابق وادی کاغان اور بالاکوٹ کے تمام ہوٹل عید کے روز ہی سے مکمل بک تھے یہاں تک کہ کیمپنگ والے مقامات پر بھی رہائش دسیتاب نہیں تھی جس کے باعث وہاں پہنچنے والی اکثریت نے راتیں اپنی گاڑیوں ہی میں گزاریں۔

سیاحتی مقامات پر انفراسٹرکچر کا فقدان

پاکستان میں حالات کی بہتری کے بعد شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے لیے آنے والے افراد کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن ان سیاحتی مقامات پر انفراسٹرکچر میں اس تیزی سے بہتری نہیں لائی جا رہی۔

خیبر پختونخوا میں ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور جیسے شہر ناران، کاغان اور گلگت بلتستان جانے کے لیے گیٹ وے کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان شہروں سے گزرنے والے سیاحوں کو آج بھی 1960 کی دہائی میں بنائی گئی یک رویہ سڑکوں سے ہی گزرنا پڑتا ہے اور نتیجہ گھنٹوں برقرار رہنے والے ٹریفک جام کی شکل میں نکلتا ہے۔

انڈس ایڈونچر کلب سے تعلق رکھنے والے ندیم اعوان کے مطابق ‘ناران، کاغان یا گلگت بلتستان جانے لیے دن کے اوقات میں ایبٹ آباد، مانسہرہ سے گزرنا انتہائی تکلیف دہ بن جاتا ہے۔’

‘کچھ سال پہلے تک ہم اپنے گروپوں کو ایبٹ آباد یا مانسہرہ میں ایک رات اور دن کے لیے ٹھہرایا کرتے تھے مگر اب ہم اپنا شیڈول ہی اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ رات کو یا علی الصبح ان علاقوں سے گزر جائیں تاکہ بدترین ٹریفک جام میں پھنس کر سیاح کوفت میں مبتلا نہ ہوں۔

ندیم اعوان کا کہنا ہے کہ انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی ہی ایک بڑی وجہ ہے کہ سیاحوں کی بڑی تعداد چند مخصوص مقامات کا رخ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ناران، کاغان، مری اور گلیات میں انفراسٹرکچر دیگر علاقوں کی نسبت بہتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام کا رخ ان ہی علاقوں کی طرف ہے مگر پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں بہت سے ایسے علاقے جیسے کہ ضلع دیر، کوہستان، وادی نیلم، لیپا اور کیل ہیں جو عام سیاحوں کی توجہ کا مرکز صرف اس لیے نہیں بن پاتے کیونکہ وہاں سہولیات دستیاب نہیں۔’

ندیم اعوان کے مطابق ‘سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں اگر حکومت صرف اچھا انفراسٹرکچر ہی فراہم کر دیے تو باقی شعبوں میں نجی شعبہ خود بخود سرمایہ کاری کر کے سہولتیں فراہم کر دیتا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے!

‘سیلفی کا جنون’، دو افراد دریائے کنہار میں ڈوب گئے

کاغان میں برف کا تودہ، ناران کا زمینی راستہ بند

سوات میں رواں سال آٹھ لاکھ سیاحوں کی آمد

ناران کاغان ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر مطیع الرحمن کے مطابق ناران و شوگران کے علاقوں میں صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہاں مزید تعمیرات کی گنجائش ہی نہیں مگر سیاح ہر سال بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

‘اب ایسا نہیں ہے کہ وادی کاغان میں صرف ناران اور شوگران ہی خوبصورت وادیاں ہیں۔ یہ علاقہ ناران اور شوگران جیسی وادیوں سے بھرا ہوا ہے مگر وہاں تک انفراسٹرکچر نہ ہونے کی بنا پر سیاحوں کی رسائی انتہائی کم ہے۔ اگر وہاں پر مناسب انفراسٹرکچر تعمیر کر دیا جائے تو اس سے سیاحت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔’

گلگت بلتستان میں سیاحوں میں کمی

جہاں پاکستان کے دیگر تفریحی اور پرفضا مقامات پر عید کے دوران رش میں اضافہ دیکھا گیا وہیں گلگت بلتستان میں صورتحال توقعات کے برعکس رہی۔

گلگت، ہنزہ ہوٹل ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن راجہ حسین کے مطابق گزشتہ سالوں کے مقابلے میں گلگت و ہنزہ میں 60 فیصد کم سیاح پہنچے اور یہاں موجود ایک ہزار کے قریب ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں سے ماسوائے چند لگژری ہوٹلوں کے فل بکنگ والی صورتحال نہیں تھی۔

راجہ حسین کے مطابق اس کمی کی بنیادی وجہ باآسانی رسائی نہ ہونا ہے۔ ان کے مطابق ہر سال جون کے پہلے ہفتے میں ناران مانسہرہ سے بابوسر ٹاپ روڈ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا جاتا ہے جہاں سے سیاح سہولت کے ساتھ گلگت و ہنزہ پہنچ جاتے تھے۔

مگر اس سال ابھی تک بابوسر ٹاپ روڈ نہیں کھولی گئی جبکہ دوسری جانب شاہراہ قراقرم پر کئی مقامات پر سی پیک اور داسو ڈیم کی وجہ سے تعمیراتی کام شروع ہے جہاں ٹریفک کئی گھنٹوں کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔

جبکہ پی آئی اے کے کرایوں میں اضافے کی وجہ سے بھی سیاحوں کے لیے گلگت اور ہنزہ آنا آسان نہیں رہا۔ راجہ حسین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے ہنزہ کے لیے فضائی سفر کا کرایہ جو گذشتہ سال آٹھ سے دس ہزار تک تھا اس سال 30 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے!

ٹراؤٹ، سوات کی مشہور سوغات

سوات میں پہلی بار خواتین کے لیے ثقافتی میلہ

گلگت بلتستان میں خوراک کا بحران

لاہور سے اپنے خاندان کے ہمراہ ہنزہ پہچنے والے چوہدری فیصل کا کہنا تھا کہ وہ ہر سال عید ہی کی چھٹیوں میں ہنزہ اور گلگت پہنچ کر تفریح کرتے ہیں مگر اس سال بابو سر ٹاپ روڈ بند ہونے کی وجہ سے جتنی مشکل ہوئی وہ ناقابلِ بیان ہے۔

‘بشام سے چلاس تک سڑک خراب ہونے کی وجہ سے 13 گھنٹے لگے۔ اس دوران گاڑی کو بھی نقصاں پہنچا جبکہ سارا راستہ اس طرح سنسان تھا جس طرح جنگل میں سفر کررہے ہوں۔’

کراچی سے ہنزہ آنے والے رحمان کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم اسلام آباد سے شاہراہ قراقرم پر سفر کر رہے تھے تو ہمیں لگا کہ ہم نے دنیا کی سب سے بڑی غلطی کر لی ہے اور اب واپسی کے سفر سے خوف آ رہا ہے۔’

صوبہ خیبر پختونخوا کے حکومتی ذرائع کے مطابق علاقے میں سردیوں کے سیزن میں زیادہ برفباری کی وجہ سے بابوسر ٹاپ روڈ سے برف ہٹانا ممکن نہیں ہو سکا تھا تاہم چند دونوں میں اس پر کام شروع کر دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp