معیشت کے بعد اب بینک بھی ڈبو دیں


وزیراعظم نے آج صبح قوم سے خطاب کی ریکارڈنگ نشر کی ہے۔ وزیراعظم نے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستانیوں کے بینک اکاؤنٹس کی معلومات آرہی ہیں جو پہلے کبھی کسی حکومت کے پاس نہیں تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام سے کہتا ہوں کہ جن کا پیسہ باہر پڑا ہوا ہے وہ 30 جون تک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم میں شریک ہوں اور اس سے فائدہ اٹھائیں اس کے بعد انہیں موقع نہیں ملے گا۔

گزشتہ چند دن سے خبریں آ رہی تھیں کہ بینک میں پانچ لاکھ سے زیادہ بیلنس رکھنے والے والوں کو ٹیکس والے پکڑ کر ان سے ٹیکس وصول کریں گے۔ فی الحال ہم اس چیز کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ایک سستی ترین گاڑی بھی آٹھ دس لاکھ کی آتی ہے اور بہت سے لوگ بچت کر کے اسے خریدنے کے پیسے جمع کرتے ہیں۔ یہ بھی نظرانداز کر دیتے ہیں کہ کئی لوگ پائی پائی جمع کرنا شروع کرتے ہیں تاکہ ریٹائر ہونے کے بعد پانچ لاکھ میں حج کر سکیں۔ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ لوگ بچوں کی شادیوں کے لئے بھی ساری زندگی رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ اور یہ بھی نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ایک بچے کی یونیورسٹی میں تعلیم کا خرچ ہی اب پانچ لاکھ سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم فی الحال صرف سرمایہ دار پر فوکس کرتے ہیں۔

ہماری قوم ٹیکس دینے والی قوم نہیں ہے۔ اب 5 لاکھ سے زیادہ بیلنس والے اکاؤنٹ کو ٹیکس وصول کرنے کے لیے مارک کیا جائے گا تو کیا ہو گا؟ صرف ملازمت پیشہ غریب غربا مہینے کے شروع میں کچھ رقم جمع کروائیں گے جو مہینے کے آخر تک ختم ہو جایا کرے گی۔ کاروباری حضرات تو پہلے ہی پرچی اور کیش پر اپنا کاروبار منتقل کر رہے تھے۔ اب بچت بھی لاکر میں اور سونے کی شکل میں رکھی جائے گی۔ باقی معیشت تو 6.2 فیصد کے ہدف سے ترقی کرنے کی بجائے 3.3 فیصد رہی تھی، مگر بینکنگ سیکٹر کچھ سانس لے رہا تھا۔ اب اس کی بھی انا للہ پڑھ لیں۔ عوام اور سرمایہ داروں کو بینکوں سے دور بھگانے کا یہ بہترین نسخہ ہے۔

اس نسخے کی اثر پذیری کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ نو بجے وزیراعظم کی یہ تقریر نشر ہونے کے دو تین گھنٹے بعد ہی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ دو روپے ستر پیسے زیادہ ہو چکا ہے۔ لگتا ہے کہ سرمایہ دار ہمارے وزیراعظم کو زیادہ سیریس لے گئے ہیں اور جون کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے پہلے سرمایہ باہر لے جانے پر تل گئے ہیں۔

جب جنرل مشرف نے اپنا عظیم انقلاب لا کر پاکستانی معیشت کو ایسے ہی سدھارنا چاہا تھا تو معیشت کا پہیہ جام ہو گیا تھا۔ مارکیٹ سے سرمایہ غائب ہو گیا۔ دبئی اور بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی سرمایہ کاری بڑھنے لگی۔ چار چھے ماہ میں ہی جنرل مشرف کو پتہ چل گیا کہ معیشت اگر ہو گی تو ٹیکس اور ملازمتیں دے گی، اگر ختم ہو گئی تو نہ ٹیکس ہو گا اور نہ ملازمتیں۔ وہ معیشت کی ایسی اصلاح سے تائب ہو گئے۔

روپے پیسے کا کوئی وطن یا دین دھرم نہیں ہوتا۔ جب آپ کسی ایک ملک میں آپ سرمایہ کار کا جینا حرام کریں گے اور اس کا سرمایہ بڑھنے کی بجائے گھٹنے لگے گا تو وہ بوریا بسترا اور ڈالروں کی دفن کردہ دیگیں اٹھائے گا اور کسی ایسے ملک کا رخ کرے گا جہاں اس کا سرمایہ محفوظ بھی ہو اور بڑھے بھی۔

ہمارے ایک نہایت دور دراز کے دوست ہیں۔ اندرون سندھ کے بڑے زمیندار ہیں۔ انڈسٹری کا رخ کر کے کراچی میں فیکٹریاں لگائیں اور ادھر بھی اچھا پیسہ بنا لیا۔ ایک بڑی فیکٹری پنجاب کے ایک گاؤں میں لگائی اور ساتھ ساتھ کینیڈا میں بڑی سرمایہ کاری کر کے ادھر کی شہریت کے حصول کے لئے وقت کاٹ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ بتانے لگے کہ پنجاب میں فیکٹری لگانے کی وجہ یہ ہے کہ ادھر اس کا خام مال بڑی مقدار میں دستیاب ہے۔ اور اس فیکٹری سے میں تو پیسہ بناؤں گا مگر یہ دیکھو کہ اس پسماندہ علاقے پر اس کے کیا اثرات مرتبہ ہوں گے۔ ادھر سڑکیں بنیں گی، لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی، ملازموں کی رہائش کے لئے نئی آبادیوں کی بنیاد رکھی جائے گی، نئے سکول بنیں گے، ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے نئے بازار بنیں گے جہاں چیزیں بیچنے والے بھی ہوں گے اور سروسز فراہم کرنے والے مکینک اور دیگر ہنرمند بھی۔ اگر میری فیکٹری ٹیکس کا ایک پیسہ بھی نہ دے تو معیشت کو میری فیکٹری سے بے تحاشا فائدہ پہنچتا ہے۔

اب اگر ایسے فیکٹری والے کو ہم کینیڈا، بنگلہ دیش یا دبئی جانے پر مجبور کریں گے تو یہ سارے مواقع ادھر پیدا ہوں گے۔ جس شخص کے پاس ایک ملین ڈالر یعنی پندرہ کروڑ روپے ہوں، اسے امریکہ برطانیہ کینیڈا آسٹریلیا جیسا ہر ملک اپنے پاس کھینچنے کے لئے کوشاں ہوتا ہے۔ ہم الٹا ایسے لوگوں کو بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلا سے یہ لوگ سو فیصد ٹیکس چوری کر لیں، مگر یہاں معیشت کا جو پہیہ گھمائیں گے اس سے لاکھوں گھروں کے چولہے جلیں گے۔

بالواسطہ ٹیکس سے حکومت ابھی بھی کما رہی ہے۔ ٹیکس کا دبئی ماڈل سٹڈی کریں کہ ادھر حکومت انکم ٹیکس کے بغیر کیسے پیسے کما رہی ہے اور دنیا بھر کا سرمایہ کھینچ رہی ہے۔  پاکستانی قوم کو ٹیکس کی طرف لانے کے لئے آسانیاں فراہم کریں۔ ابتدائی طور پر انکم ٹیکس کی شرح ایک دو فیصد کریں اور اگلے دس سال میں آہستہ آہستہ اسے اوپر لے جائیں۔ پھر ٹیکس کی ادائیگی آسان کریں۔ ہم تو خیر ایک عام ٹیکس دہندہ کی حیثیت سے بات کر رہے ہیں مگر ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں بہت قابل افسر موجود ہیں جو ذمہ داری دیے جانے پر اچھا ٹیکس ماڈل تیار کر سکتے ہیں جو ہمارے قومی مزاج کے مطابق ہو۔

آپ ٹیکس ادا کرنے کے لئے ایف بی آر یا پنجاب ریونیو اتھارٹی کی سائٹ پر جاتے ہیں تو جو معلومات وہ طلب کرتے ہیں انہیں صرف ایک ٹیکس کنسلٹنٹ ہی فراہم کر سکتا ہے، ایک عام انسان نہیں۔ سیدھا سیدھا پوچھیں کہ کتنی انکم ہے جس پر ٹیکس لگنا ہے، اور اس پر معمولی شرح سے ٹیکس کاٹ لیں۔ اور لوگوں کے لئے ٹیکس افسران کو عذاب کے ایسے فرشتے نہ بنائیں کہ جو ٹیکس میں رجسٹر ہو وہ تاحیات اذیت اٹھاتا رہے۔ پبلک لمیٹڈ کمپنیوں یا تیس چالیس کروڑ سیلز والی کمپنیوں سے آپ ضرور گوشوارے طلب کریں لیکن چھوٹے کاروباری اور عام شہری کو اس عذاب سے محفوظ رکھیں۔

ٹیکس کا ایک دلچسپ لطیفہ ہے کہ اگر آپ نے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کھول لی ہے اور آپ کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے بھی ہے تو آپ کا ٹیکس تو صفر ہو گا مگر ٹیکس کنسلٹنٹ کی مد میں آپ کو بیس تیس ہزار روپے دینے ہوں گے تاکہ وہ آپ کا ٹیکس فارم بھر سکے۔ اس کے بعد آپ خواہ اپنی دکان کا کرایہ ادا کریں یا مارکیٹ سے کوئی چیز خریدیں، مالک مکان یا دکاندار کے حصے کا ایڈوانس انکم ٹیکس آپ نے خود ادا کرنا ہو گا کیونکہ وہ اپنا ٹیکس دینے سے انکاری ہے۔ یعنی آپ اپنا ٹیکس بھی دے رہے ہیں اور دوسرے کا بھی۔ کیا یہ عقل والی بات ہے؟

جسے ادائیگی کر رہے ہیں شہری اس سے رسید لیں اور اپنے ٹیکس کاغذات میں وہ رسید دیں کہ فلاں سے یہ چیز خریدی ہے۔ اس کے بعد ٹیکس والے اس ٹیکس چور سے وصولی کریں نہ کہ ٹیکس ادا کرنے والے ایماندار شہری سے۔ جب حکومت کا ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہو گا تو کون بے وقوف راضی خوشی ٹیکس دے گا اور اپنی ایمانداری کی سزا پائے گا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar