نمکین گلابی چوہا


دیہاتی کلچر میں عام آدمی کی برادری کے ساتھ ساتھ زمین، فصل اور مویشی کل متاع ہوتی ہے۔ اسی چیزوں پہ اس کے رتبے کا پتہ چلتا ہے۔ دیہاتوں میں جب کسی سے دشمنی ہو تو اسے پالنے کا ایک شوق ہوتا ہے۔ دشمن کے ہر وار کا جواب فصلوں کے پکنے تک دیا جاتا ہے۔ گاؤں میں پکی فصل کی کسان ایسے حفاظت کرتا ہے۔ جیسے ماں جوان بیٹی کی یا پھر شوہر اپنے موبائل کے پاس ورڈ کی۔ عام طور گاؤں میں بدلہ لینے کے لیے فصلوں کو آگ لگائی جاتی ہے۔

اس جوان بہترین فائدہ دینے والی فصل کے لیے ایک چوہا بہت ہوتا ہے۔ مخالفین زندہ چوہا پکڑ کے، اس کی دم کے ساتھ دیسی تیل میں ڈوبی ہوئی روئی کا پھالا باندھ دیتے ہیں۔ اس منتخب چوہے کو دشمن کے کھیتوں سے چند میٹر دور کرکے روئی کو آگ لگا دیتے ہیں۔ وہ آگ لگا چوہا جوان فصل میں گھس کے آگ لگا دیتا ہے۔ اس طرح مربعوں پہ پھیلی فصل چند لمحوں میں راکھ بن جاتی ہے۔ ایسے چوہے گاؤں میں بدلہ لینے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں۔

ٹیپو سلطان کو ناکام کرنے والے حضرات نے عین جنگ کے موقع پہ فوجیوں کو اطلاع دی تنخواہ مل رہی ہے۔ بس اس چوہے نے مرد میدان کو شکست کی دھول چٹا دی۔ موجودہ سیاست میں اب یہ چوہے ڈیجیٹل ہو گے ہیں۔ دشمن کی صفوں کو آگ لگی دم کے ساتھ چیرتے ہوئے یہ چوہے چھوڑنے والے قصہ خواں صحافیوں کے روپ میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ احباب مخصوص تصاویر شئیر کر کے آگ زدہ دم والے چوہے چھوڑتے ہیں۔ جو معصوم لوگوں کے دماغوں کی فصل تباہ کرتے ہیں۔

تازہ چوہا جو آج کل چھوڑا جارہا ہے۔ وہ گلابی نمک ہے۔ جناب عرض کرتا چلو۔ اب زمانہ ترقی کر چکا ہے۔ لوگ آئیوڈین ملا میڈیکیٹڈ مخصوص درجہ حرارت میں سے گزار کر حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔ وہی استعمال ہوتا ہے۔ آپ یقین کریں، میں نے گلابی نمک کے بعد انڈیا کی کیس سٹڈی پڑھی ہیں۔ نمک سمندر کے پانی سے ملتا ہے، نمک سیم تھور زدہ زمین سے ملتا ہے۔ میں نے اپنی یونیورسٹی کے چھے انڈین سے پوچھا ہے کہ آپ پاکستانی نمک استعمال کرتے ہو، جواب نہیں آیا۔

ہمیں اس چیز پہ دکھ ہوتا ہے کہ نمک انڈیا چلا گیا۔ ہم نے اپنے بہترین دماغ ذلیل و رسوا کر کے ملک بدر کیے۔ کس کے لیے ہم روئے۔ کسی کے ہم نے پاؤں پکڑ کے جانے سے روکا۔ ہم نے ڈاکٹر سعید کو ٹاپ ٹرینڈ بنا کے روک لیا نہ جاؤ، آپ کی وجہ سے بہترین علاج سے عام آدمی محروم ہو جائے گا۔ ہم نے ڈاکٹر عبدالسلام کو روکا تھا۔ ہم چوہے چھوڑ کے ذلیل کرتے ہیں۔ پچھلے سال میٹھا پانی ختم ہونے کا چوہا تھا، یوں لگتا تھا ہم پیاسے مر جائیں گے۔ اب صاحب، مصاحب سب ڈیم پہ پہرہ دیتے نظر آرہے ہیں۔

کرپشن اس ملک میں کینسر کی طرح کا چوہا تھا، پھر وہ چوہا غائب ہوا، ایسے میں گجرات کے چوہدری، فیصل واڈا، علیم خان، فردوس آپا سب نیب سے پاک ہو گے۔ پھر یہ چوہے مودی کے یار سے غدار ہوئے۔ پھر موجودہ حکومت نے چوہے مارکے محبت کی فاختائیں اڑائیں۔ یہ فاختہ کرتارپورہ بارڈر پہ ملی۔ جسے مودی کے عیار عقاب ابھی نندن کھانے کے لیے بھاگا مگر پکڑا گیا۔ پھر ہم نے عقاب کو فاختہ کا لباس پہنا کے دوبارہ فضاؤں میں اڑنے کے لیے چھوڑ دیا۔

ہم نے ٹویٹس کر کے ڈیجیٹل چوہوں کے ذریعے مودی کو محبت کے پیغامات ارسال کیے۔ ہمارے فون نہیں سنے مودی مگر ہم نے ہار نہیں مانی، اسوقت تک کال کرتے رہے کہ ظالم بات نہ کرلے۔ ہم سب سے زیادہ مبارکباد دینے والا ملک کا خطاب اپنے نام کرگے۔ آخری خط جو چند روز پہلے لکھا اس میں بھی مبارکباد لکھی۔ اس قدر محبت کرنے والے حکمرانوں کے عوام اتنے سادہ ہیں، بغیر تحقیق کیے وہ بیہودہ بات آگے منتقل کر دیتے ہیں۔

ہم لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے سچ نہیں مرتا، جو مڑ کے بتاتا ہے میں سچ ہوں۔ صحافت کے نام پہ دھبے قصہ خواں جب بات کرتے ہیں تو ہم ان کی بات پہ قسم بھی کھا لیتے ہیں۔ ایسے ڈیجیٹل چوہوں نے قوم کی سوچ مخصوص حد تک محدود کردی ہے۔ جس نے فصل نہیں نسل تباہ کردی ہے۔ یہ نسل دہشتگردی سے بھی بڑی تباہی ہے۔ یاد رکھو انسان سب سے بہترین میٹریل ہے۔ اس کی ترقی ضروری ہے۔ مشینیں بنا کے احمقوں کو دینا ایسا ہی جیسے بندر کے ہاتھ میں سوشل میڈیا دے دیا جائے اور وہ سارے ڈیجیٹل جنگل کو آگ لگا دے۔

Following link describes the detail of sources from where India meets the requirement of salt۔

http://www.walkthroughindia.com/offbeat/top-5-largest-salt-production-states-india/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).