تم ورکنگ وومن ہو یہ کرلو، تم ورکنگ وومن ہو وہ بھی کرلو


تین دن سے دانت میں شدید درد تھا۔ میں روٹ کینال ٹریٹمنٹ کروانا چاہتی تھی۔ اللہ بھلا کرے ایک ڈینٹسٹ دوست بریرہ اسلام کا، ایک بار میرے دانت نکلوانے پہ اس نے ڈانٹا تھا اور یہ مشورہ دیا تھا کہ دانت نکلوانے کی بجائے آر سی ٹی کروالیا کرو، اس کا فائدہ یہ ہے کہ دانت مردہ ہوجاتا ہے لیکن اپنی قطار کے اندر رہتا ہے۔ جب ہم دانت نکلواتے ہیں تو مسوڑھوں کے درمیان خلا آ جاتا ہے اور اس سے باقی دانت بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے مجھے بھائی کے وقت کا انتظار تھا کہ اس دوران ایک دوست کا فون آ یا۔ ان کے استفسار پہ کہ ”ایسے مرے ہوئے لوگوں کی طرح کیوں بات کررہی ہو“ مجھے بتانا پڑا کہ میں مبتلائے درد اسنان ہوں۔

پوچھا۔ ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی؟
عرض کیا۔ بھائی کا انتظار ہے کہ کب وہ وقت نکالے ( وقت تو اس سے نکلوا بھی سکتی ہوں لیکن پھر اس کے مزاج کی برہمی کو پورا دن برداشت کرنا پڑتا ہے ) ۔

کہنے لگیں۔ تم ورکنگ وومن ہو۔ خود چلی جاؤ۔
یہیں سے میرا کالم شروع ہوتا ہے۔ اس بات سے کہ ورکنگ وومن ہو یہ کرلو، تم ورکنگ وومن ہو وہ بھی کرلو۔

پہلی بات یہ کہ تعلیم یافتہ اور خودمختار ہونے کا یہ مطلب کہاں سے آ گیا ہے کہ اب اس عورت کو زندگی کے کسی بھی معاملے میں کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ اپنی میت پہ ماتم بھی خود ہی کرے۔ وہ بیمار ہو تو خود ہسپتا ل جائے، خواہ درد اور تکلیف کی حالت میں گاڑی کسی گاڑی میں مار دے اور سیدھی خدا کے پاس پہنچے۔ پہاڑ سے نیچے گر کے ہڈیاں تڑوا بیٹھی ہے تو اپنی ہڈیاں بھی خود ہی جوڑے۔ بم دھماکے میں پھٹ کے بکھر گئی ہے تو اپنے گوشت کی گٹھڑی بھی خود باندھے۔

ہمارے ہاں ورکنگ مرد نے گھر سے باہر کا میدان سنبھالا ہوا ہے تو گھر کے اندر کی کتنی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے کہ ہم ورکنگ لیڈی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ گھر کے ساتھ ساتھ باہر کے معاملات بھی وہ خود ہی دیکھے۔ مرد تو ایک طرف رہے، گھریلو خواتین کا رویہ بھی ورکنگ لیڈیز کے حوالے سے ایسا ہی ہے۔ اگر گھر میں کوئی ایک خاتون ملازمت پیشہ ہے تو ساس، نندوں اور دیورانیوں، جیٹھانیوں کا عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ ہم سارا دن گھر میں پستی ہیں اور یہ گھر سے باہر عیش کرکے آ تی ہے۔ اچھے اچھے کپڑے پہنتی ہے تو ایسے کپڑے ہم بھی پہنیں، اس نے ملازمہ رکھی ہوئی ہے تو ہم بھی رکھیں۔

بصد شوق رکھیں۔ بصد شوق ایسا اوڑھیں پہنیں، لیکن ایک فرد کا اپنے ساتھ موازنہ کرتے وقت اس کی مشقت کا حساب بھی اپنے ذہن میں رکھیں۔ آ پ صرف اتنا سوچ لیں کہ جس بی بی کے پاس اچھی ملازمت ہے اس نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کچھ مغز ماری کی ہوگی جو آپ نے نہیں کی۔

جن دنوں آ پ شادی کے اور شہزادے کے خوابوں میں مگن اپنے چہرے اور حلیے کی حفاظت پہ مامور تھیں وہ غریب یونیورسٹی کی سیڑھیوں اور نوٹس میں پھنسی تھی۔ جس وقت آ پ زندگی کی بہت سی راحتیں اور لذتیں لوٹ رہی تھیں اس وقت وہ خود پہ جبر کیے اپنی ڈگری لینے کی تگ و دو میں تھی۔

وہ ملازمت کے دوران گھر سے باہر کیا کچھ برداشت کرتی ہے۔ آ پ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتیں۔

آ پ مرد کے بغیر گھر کابلب نہیں بدل سکتیں، واش روم کی کھوچل ٹونٹی نہیں ٹھیک کر سکتیں، پانی کا گیلن نہیں اٹھا سکتیں، اور اس سے توقع کرتی ہیں کہ کٹی پھٹی ہوئی حالت میں بھی خود ہی ڈاکٹر کے پاس جائے۔

کیا ورکنگ ہونے کی وجہ سے انسانی ہمدردی اور سہولتیں اس کے لیے معطل ہوجاتی ہیں؟

ایک طرف آ پ کو ہر چیز اس کے برابر چاہیے۔ دوسری طرف آ پ اپنے برابر اسے ایک بھی سہولت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں؟

اس سوچ کو بیلنس کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر ایک فرد کسی طرف سے ہم سے بہتر ہے تو ممکن ہے اس نے کچھ پانے کے لیے وہ کھویا ہو جو ہمیں میسر ہے۔

کام کرنے والی خواتین کو انسان سمجھیں اور انہیں بھی مدد اور سہارے کی اتنی ہی حقدار سمجھیں جتنی کہ کوئی بھی دوسری گھریلو عورت ہوتی ہے۔ آ پ صرف گھر اور بچے سنبھالتی ہیں وہ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ گھر کی معیشت میں بھی حصہ ڈالتی ہے۔ چاردیواری کے باہر اچھا برا بھی برداشت کرتی ہے۔ اور یہ کہ اس کے پاس آ پ کی طرح سازش کے لیے بھی اتنا وقت نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).