غیر روایتی میدان جنگ


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پچھلے دنوں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکا ء سے خطاب میں کہاتھا کہ ہم ہائبرڈ وار سے نبرد آزما ہیں، لوگوں اور نوجوانوں کو اس پروپیگنڈے سے دور رکھنا ہماری بڑی ذمے داری ہے ’ہائبرڈ وار مذہبی، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر لڑی جا رہی ہے‘ قوم بالخصوص نوجوان ہائبرڈوار میں پروپیگنڈے کے خلاف اپنا کردار ادا کریں، ہائبرڈ جنگ کے مقابلے کے لیے قومی رسپانس کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کوگزشتہ 2 دہائیوں سے کئی خطرات کا سامنا رہاہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان گنت قربانیوں کے صلے میں حاصل ہونے والے فوائد سے ہمیں ہر صورت فائدہ اٹھانا چاہیے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں۔

ہمیں جنرل قمرجاوید باجوہ کے اس خطاب کا حوالہ گزشتہ دنوں قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں وقوع پزیرہونے والے بدامنی کے بعض پے درپے واقعات کے تناظر میں دیناپڑاہے جن میں جہاں ایک طرف پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو بعض بے چہرہ دشمنوں کے ہاتھوں شہادتوں کے تازہ جام نوش کرناپڑے ہیں وہاں دہشتگردی کے خلاف ایک طویل اور صبرآزما جنگ جس میں ہمیں بحیثیت مجموعی 70 ہزار سے زائد قیمتی جانوں اورڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کے اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑاکے بعد اب ایک ایسی جنگ جسے ہائبرڈ وار کانام دیا جارہا ہے سے واسطہ درپیش ہے جس کا نشانہ قومیت، زبان اور مسلک کی بنیاد پر ہمارے نوجوان ہیں وہاں ان واقعات کی آڑ میں بعض عناصر پاک فوج اور اس کی قربانیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر جونفرت انگیزپروپیگنڈا کررہے ہیں اس کو دیکھ کر جنرل باجوہ کی ہائبرڈ وار کی تھیوری پر اعتراضات کی گنجائش کے باوجود یقین کرنے کے سوا اور کوئی آپشن نظر نہیں آتا ہے۔

افسوس اس بات پر ہے کہ پاک فوج کواگرایک جانب بھارت سمیت کئی دیگر دشمن قوتوں کی کھلی اور ننگی جارحیت کا سامنا کرناپڑرہا ہے وہاں اندرونی محاذوں پر بھی ان ہی دشمن قوتوں کی سازشوں جن میں بدقسمتی سے انہیں ہماری اندرونی صفوں سے بھی بعض عناصر کی پشت پناہی اور ہمدردی حاصل ہے کا مقابلہ درپیش ہے جب کہ اس صورتحال کا ایک تاریک اور منفی پہلو ہماری سیاسی قوتوں اور ریاست کے تمام قابل ذکر سٹیک ہولڈرز کا ازخود یہ تصور کر لیناہے کہ اس صورتحال کی بالواسطہ یا بلاواسطہ ذمہ داربھی چونکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ ہے لہٰذا ان حالات کے مقابلے کی ذمہ داری بھی تنہا افواج پاکستان اور اس کے ذیلی اداروں پر عائد ہوتی ہے حالانکہ ایساہرگز نہیں ہے کیونکہ ایسا سوچنا یاکہنا کسی کی غلط فہمی یا کم فہمی تو ہو سکتی ہے اس کا حقیقت سے شاید دورکا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔

دراصل یہی وہ بظاہرباریک لیکن حقیقتاً ایک واضح نظر آنے والا نقطہ ہے جس کو نہ صرف سنجیدگی سے سمجھنے بلکہ بحیثیت قوم تمام ریاستی اداروں کو اس کا ادراک کرنے اور اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس لائحہ عمل کی تیاری کے لئے سب سے پہلے تو تمام ریاستی اداروں کو اس لائحہ عمل کی تیاری کی ضرورت پر وسیع تر قومی مفاد میں متفق ہوناہوگا، ثانیاًاس روڈ میپ کی تیاری کے عمل میں کسی بھی فریق کولاگ لپیٹ رکھے بغیر قوم کے اجتماعی مفاد سے وابستہ ہر ایشو کے تمام پہلوؤں کو کھل کر ایک دوسرے کے سامنے نہ صرف رکھنا ہوگا بلکہ اس پر ایک دوسرے کوزمینی حقائق کی بنیاد پر منطق اور دلیل سے مطمئن بھی کرنا ہوگا۔

مثلاً عام تصور کے مطابق مسلح افواج کاکام اگر محض ملکی سرحدوں کا تحفظ ہے اور اسے ملک کے اندرونی مسائل اور حالات سے خود کو لاتعلق رکھنا چاہیے بظاہر یہ خواہش بڑی معصوم اور قابل قدر معلوم ہوتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے اندرونی معاملات میں فوج کی مداخلت کی عادت یا خواہش سے زیادہ کیا فوج کو اس راہ پر ڈالنے کے ذمہ دار ہمارے سول ادارے خواہ وہ سیاسی جماعتیں اورپارلیمنٹ ہوں اور یاپھرعدلیہ، بیوروکریسی اور براہ راست خدمات فراہم کرنے والے پولیس، تعلیم، صحت، مواصلات اور رفاہ عامہ سے متعلق ادارے ہوں کیا یہ ان ہی اداروں کی نالائقی اور ناکامی کا سبب نہیں ہے کہ فوج کوبطور ایک منظم اور تربیت یافتہ ادارہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد ان اداروں کا گند صاف کرنے کے نام پر بیرکوں سے نکل کر یہ فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں جس کا بالعموم ان اداروں کے ستائے ہوئے عوام کوبادل ناخواستہ استقبال کرناپڑتا ہے۔

لہٰذا اگر یہ ادارے چاہتے ہیں کہ فوج ان کے دائرہ کار میں مداخلت نہ کرے اور شاید ان کی کارکردگی بہتر ہونے پر فوج اگر ایسا کرنا بھی چاہے گی تو وہ شایدایسا اتنی آسانی سے نہیں کر سکے گی جتنا کہ اب وہ کرتی ہے تو اس کے لئے ان تمام اداروں کو نہ صرف اپنے اندر ملک کے اندرونی مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کاجذبہ اور صلاحیت پیدا کرنا ہوگی بلکہ روزمرہ معمولات کے ساتھ ساتھ غیر معمولی حالات میں بھی اپنے عمل وکردار سے ہر طرح کے حالات سے نبردآزما ہونے میں خود کو فوج سے اہل تر ثابت کرناہوگا۔

ہمارے ہاں اس تصورکے پروان چڑھنے یاچڑھائے جانے کہ فوج ہی ہمارے تمام دکھوں کا مداوا ہے اور ہمارے ہاں ماسوائے فوج کے تمام ادارے ناکام، نا اہل اور کرپٹ ہیں لہٰذا فوج ہی ایک ایساواحدادارہ ہے جس کے پاس نہ صرف ملکی مسائل کو حل کرنے کی گیدڑ سینگھی ہے بلکہ یہ اس کی قومی اور ریاستی ذمہ داری بھی ہے یہ سوچ اور نقطہ نظر سو فیصد غلط ہے کیونکہ ہم جب بھی ملک کے اندرونی معاملات بالخصوص سیاست اور بعض ریاستی معاملات میں فوج کی غیر ضروری مداخلت کا رونا روتے ہوئے اپنی مسلح افواج کا موازنہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک حتیٰ کی بھارت کی افواج سے کرتے ہیں تو اس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان قوموں نے یہ مقام جہاں کئی صدیوں اور عشروں کی جہد مسلسل سے حاصل کیا ہے وہاں ان ممالک میں دیگر ریاستی اداروں نے اگر ایک طرف اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کا حق ادا کرنے میں کسی بخل، تساہل اور نا اہلی سے کام نہیں لیا ہے۔

دوسری جانب ان قوموں نے باہمی اعتماد اور ایک واضح دستورالعمل کے ذریعے اپنے اپنے معین دائرہ ہائے کار پرتمام تر نامساعد حالات کے باوجود کاربند رہنے کا جو عملی مظاہرہ کیا ہے یہ اسی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہے کہ آج یہ معاشرے نہ صرف مادی تعمیرو ترقی کی بنیاد پر دنیا کی قیادت کررہے ہیں بلکہ سماجی بہبوداور فاہ عامہ کے لحاظ سے بھی دنیا بھر کے لئے مثال بنے ہوئے ہیں لہٰذا ہم بھی اگر اپنامستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں توہمیں بھی اپنے ریاستی اداروں پر اعتماد کے کلچر کوفروغ دینا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).