زرداری کی گرفتاری کس کا فیصلہ ہے؟


کل رات سے ہی سوشل میڈیا پر جیالوں نے شور مچایا ہوا تھا۔ لگتا تھا بڑے صاحب کی گرفتاری کا فیصلہ کہیں دور لکھنے کی خبر سب تک پہنچ چکی تھی۔ بتانے والے بتاتے تھے کہ بجٹ کے آس پاس یہ کارروائی ہوگی۔ زرداری صاحب کو واپس اسی جگہ جانا ہوگا جہاں وہ طویل عرصے تک مہمان رہ چکے ہیں۔ لیکن اس گرفتاری کو حکومت کے کھاتے میں ڈالنا ممکن نہیں۔ حکومت نیب کو کتنا کچھ کہہ سکتی ہے اس کی اجازت نہ قانون دیتا ہے نہ حالات واقعات۔

یہ فیصلہ کہیں اور بالا بالا ہوا ہے اس کے لیے زرداری صاحب کے جرائم کی طویل فہرست دیکھنا ہوگی جو سانحہ ساہیوال کے معمولی اہلکاروں کو نہ پکڑ سکے وہ زرداری کی گرفتاری کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کے لیول سے اوپر کا فیصلہ ہے۔ زرداری صاحب نے حکومت نہیں گرنے دی۔ اور جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ پی ٹی ایم کو مین سٹریم میں لائے۔ مریم بلاول کو ایک ساتھ بٹھایا۔ فضل الرحمن کو ٹھنڈا کرتے رہے۔ قاضی فائزعیسیٰ کی حمایت کرتے رہے۔

اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی مزاحمت۔ سی پیک کے بانی تو وہ تھے ہی۔ کہانی بہت لمبی ہے۔ اور یہ ابھی جاری ہے۔ پاکستانی سیاست پر کوئی تبصرہ تجزیہ حتمی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک خبر۔ واقعہ سب کچھ بدل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیوار کے پیچھے سیاست زیادہ اور فرنٹ پر کم ہوتی ہے۔ اس لیے ایک عمومی سوال یہ کیا جاتا ہے کہ کیا چل رہا ہے۔ اس کیا چل رہا ہے تک پہنچنے کے لیے کبھی کسی تصویر کا سہارا لیا جاتا ہے جس میں باڈی لینگویج پر غور کیا جاتا ہے۔ کبھی ٹویٹ پر لکھے گئے مختصر الفاظ کے اندر چھپے معانی تلاش کیے جاتے ہیں۔ اور کبھی تو خاموشی تک کو معانی پہنائے جاتے ہیں۔

اپوزیشن اور حکومت دونوں کے اطراف میں الفاظ کی گولا باری مسلسل چلتی رہتی ہے اور ان مورچوں میں پوزیشن لینے والے کبھی خاموش نہیں ہوتے۔ جس سے ان کے کارکنوں کا مورال اپ رہتا ہے۔ لیکن اس کے بین بین کچھ نہ کچھ اہم واقعات جنم لیتے رہتے ہیں جہاں خبر بنتی یے۔ عید کے بعد بجٹ سب سے اہم تھا لیکن اب سابق صدر زرداری کی گرفتاری نے سب سین بدل دیا پردہ سکرین پر نظریں جما کر رکھیں۔ اگلا سین کیا ہو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).