وزیرستان میں عید


رمضان المبارک کے آخری دنوں میں سارے کام کاج چھوڑ کر اپنے گاؤں مروبی شابی خیل جنوبی وزیرستان چلا گیا جہاں آج کے جدید دور میں بھی نہ تو موبائل سروس ہے اور نہ ہی باہری دنیا سے رابطہ کرنے کا کوئی اور وسیلہ ہے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ورلڈ کپ کے میچز دیکھنے کے لئے بیٹری لگائی تاکہ کم از کم ورلڈ کپ کے میچز سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ بہرحال بیٹری کا ساتھ تب تک ہے جب تک دھوپ ہے اور ہمارے علاقے میں اکثر بادل ہی چھائے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بیٹری چارج کے لیے اکثر مطلوبہ چارج میسر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے میچ بھی ٹکڑوں میں دیکھنا پڑتا ہے۔

ماشاءاللہ سے ہمارا قومی سپورٹس چینل اتنے ایڈ دکھاتا ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی نیوز چینلز کا دیدار کرنا پڑتا ہے جہاں سکرین پر بریکنگ نیوز کی سرخ لکیروں کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور ایک ادنیٰ صحافی کے طورپر اتنا جانتا ہوں کہ کون سی خبر کہاں سے آتی ہے اور یہ خبریں کتنی مصنوعی ہوتی ہیں اس لیے زیادہ پریشانی کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا لیکن جب سے صحافت سے ناتا جڑا ہے حالیہ دور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں صحافت مکمل طور پر بارکوں میں قید ہوچکی ہے۔

جب بھی سکرین پر کوئی خبر دیکھی تو فردوس عاشق اعوان صاحبہ سکرین پر چھائی رہیں اور صاحبہ کا مقام تو ہردور میں بہت اعلیٰ ہی رہا ہے لیکن جس خبر سے بہت زیادہ خوشی ملی وہ یہ تھی کہ فوج اپنے بجٹ سے کٹوتی کرکے بلوچستان اور فاٹا میں لگانے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ بطورِ وزیرستان کے شہری فاٹا کی ترقی کی خوش فہم سوچ نائن الیون کے بعد سے ہی پروان چڑھی تھی کہ جب دنیا نے فاٹا میں جاری وحشت کے کاروبار کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیے مگر ہوا یہ کہ یہاں کے لوگوں کا بنا بنایا اقتصاد بھی برباد ہوگیا اور حساب کتاب کسی کے پاس نہیں ہے لیکن اس بار امید کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے کہ شاید فیصلہ سازوں کو اندازہ بھی ہوا ہو اور کچھ ترس بھی آیا ہو کہ اب بس ہونی چاہیے۔

میرے گاؤں میں ہر عید کے دن ڈھول کا بندوبست ہوتا ہے اور عید کے تین دن مکین شہر کے تمام ملحقہ گاؤں بھی اتن کے لئے آتے ہیں اور ہم یہ خوشی مل کر مناتے ہیں لیکن کچھ گھنٹوں بعد ہی پروگرام ختم کردیا گیا۔ پوچھنے پر اندازہ ہوا کہ لوگوں میں ایک عجیب خوف کی فضا بنی ہوئی ہے کہ کچھ لوگ اسلحہ سمیت آتے ہیں اور کسی بھی جگہ کوئی واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ تھی کہ لوگ ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں کہ کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا۔

کچھ دوستوں کو ملاکر فیصلہ کیا کہ حجرے پر میوزک کا پروگرام کرتے ہیں چاہے جو بھی ہو لیکن جس طرح کا ماحول بنا ہے اس سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش ضروری ہے اور اللہ نے کامیابی دی اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اپنا ماحول کسی صورت بھی دوبارہ خراب نہیں ہونے دینا ہے۔ سوشل میڈیا سے دوری کی وجہ سے اکثر باتوں کے بارے میں علم نہیں رہا لیکن جو لوگ آتے وہ بتاتے رہے کہ آج اتنے لوگ گرفتار ہوئے پشاور میں جاری دھرنے پر تشدد ہوا بہت سی گرفتاریاں ہوئیں وغیرہ لیکن میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اپنے مقصد کو صاف شفاف رکھو گے تو ایسی تکالیف کے بعد اچھے دن آتے ہیں، انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھتا ہے وہ چاہے عام انسان ہو یا سرکاری انسان، ہاں نیت خراب ہو تو خرابیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہیں۔

عید کے تیسرے دن شوال جانے کا پروگرام بنا جو کہ لواڑہ منڈی پر ختم ہوا کیونکہ آگے ایک تو روڈ خراب تھا اور دوسری طرف ایسی باتیں بھی سنیں کہ حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ سپین کمر کے علاقے میں موجود ایف سی کے چیک پوسٹ پر سپاہی نے کہا کہ آپ کے ساتھ جانے والوں میں وزیر قوم کے بندے بھی شامل ہیں جس کے بارے میں آپ کے قبیلے کے لوگ رپورٹ کرتے رہے ہیں کہ وزیروں کو اس طرف نہیں چھوڑنا ہے کیونکہ ہمارے درمیان ایسے معاملات ہیں جس کی وجہ سے ماحول خراب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، میں حیرانی سے سپاہی کو دیکھتا رہا اور پوچھا کہ کوئی سرکاری آرڈر جاری ہوا ہے کہ وزیرقبیلے کے افراد کو نہیں جانے دینا ہے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا پھر میں نے پوچھا کہ سر آپ سرکاری بندے ہیں اگر آپ کو اوپر سے آرڈر بھی نہیں ہے تو آپ اس طرح تعصب والی باتیں کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے مجھے عالمی سطح کی سیاسی حالات پر ایک مفصل بریفنگ دی کہ کس طرح امریکہ اور انڈیا ان حالات کا استعمال کرسکتا ہے۔

اجازت تو مل گئی لیکن سوچتا رہا کہ ہمارے سپاہی اس قدر عالمی حالات پر عبور رکھتے ہیں۔ ویسے تو وزیرستان انتہائی خوبصورت علاقہ ہے لیکن شوال بدر وغیرہ کچھ ایسے حصے ہیں جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ شاید ہی دنیا میں کہیں ایسے خوبصورت مقامات ہوں، ساتھی دوست کہہ رہا تھا کہ زمین کا یہ ٹکڑا اگر کافروں کے پاس ہوتا تو یقین مانیں دنیا کا پر امن اور خوبصورت علاقہ قرار پاتا لیکن ہم مسلمان کبھی شیطان کے چنگل سے آزاد نہیں ہوتے۔

یہ بہت بڑا علاقہ ہے اور تمام علاقوں میں پوچھتا رہا کہ یہاں کوئی سکول ہے، غیر سرکاری ہی ہو لیکن کیا یہاں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ جس کا ہر جگہ نفی میں جواب ملا لیکن پھر بھی ہمیں لہجوں سے زیادہ تکلیف ہے نہ کہ فاٹا کے ان بچوں کی برباد زندگیوں سے جنہیں آپ نے غیور کا ایوارڈ بھی دے رکھا ہے۔ وہاں سے اس امید کے ساتھ واپسی کی کہ جو پیسہ فاٹا پر خرچ کیا جانا ہے اس میں ان خوبصورت علاقوں کی ترقی پر بھی توجہ دی جائے گی۔

آج خبیر پختونخوا حکومت کا صوبے کے مختلف علاقوں میں آئے سیاحوں کے بارے میں جاری کیے گئے اعداد وشمار پڑھ رہا تھا تو بڑی حیرانی ہوئی کہ اس فہرست میں وزیرستان شامل نہیں تھا حالانکہ اتنی رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں ملحقہ علاقوں بنوں ڈیرہ اسماعیل خان ٹانک وغیرہ سے لوگ آئے تھے۔ اس دوران ایک افسوسناک واقعے کے بارے میں بھی خبروں میں سنا جس میں فوج کے افسر ز اور جوان شہید ہوئے۔ اس دکھ اور غم کو ہم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ ان خاندانوں پر کیا گزر رہی ہوگی جن کے پیارے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاتے ہیں اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

لیکن جس طرح فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے اس دہشت گردانہ حملے کو خڑ کمر شمالی وزیرستان واقعے سے جوڑنے کی کوشش کی وہ کم از کم میرے لئے ناقابل یقین ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیرستان کے ان خوبصورت وادیوں کو دنیا کو دکھانے کے لئے حکومتی سطح پر کوششیں ہو سیاحت کے فروغ کے لئے ایک جامہ پروگرام مرتب ہو تاکہ لوگوں کو سیاحت کے ذریعے مقامی طور پر ترقی ملی لوگوں کا اقتصاد بہتر ہو اور اگر لوگوں کو روزگار ملتا ہے تو پائیدار امن کا حصول نہایت آسان ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).