آشناؤں کے ساتھ فرار ہوتی ایم کیو ایم


 \"mustafaگاؤں کی گوری جوان ہوئی خلقت حیران ہوئی\’ یا رب یہ کیسی چنگاری اپنے خاکستر میں تھی کہ جس کا قد قامت قیامت سے کم نہیں\’ روپ بھی سردی کی دھوپ کہ جس کی ٹکور جسم کے ہر حصے میں برابری کی بنیاد پر تقسیم ہو. گاؤں کی ہر بڑی بوڑھی جوانی کی سرحد کو چھوتے اپنے لال کے لئے اس گوری پر نظریں جمائے بیٹھی تھی کہ سستی کی ماری ایک صبح کا سورج گوری کے کسی آشنا کے ساتھ فرار کی خبر کے ساتھ اتنی چستی سے چڑھا کہ اشراق تک بچے بچے کی زبان پر رسوائی کی یہی بات تھرک رہی تھی. پھر اچانک ایک شام گوری بھاگتی بھاگتی چیختی چلاتی گاؤں میں داخل ہوئی اسکے پاؤں میں جوتا تھا نہ سر پر آنچل. اوسان بحال ہونے پر اس نے بتایا کہ وہ گھر سے بھاگی نہیں تھی اغوا کی گئی تھی ظالموں نے اس کی عزت سے کھیلنے کی بہت کوشش کی لیکن گوری کے جذبہ ایمانی اور مجاہدانہ صلاحیتوں کے سامنے اغوا کاروں کی ایک نہ چلی اور آج پندرہ مہینے بعد وہ ان کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی. الله کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ عزت بچا لائی. جہاندیدہ بزرگ گوری کے بیان پر اشتباہ کرتے  تھے لیکن گاؤں میں گوری کے جو جو امیدوار باقی تھے سب کا یہی خیال تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے.

اگلے دن تھانے میں گوری نامعلوم اغوا کاروں کے نام پرچہ کرا کے ایک بار پھر جوانوں کی امیدوں کا مرکز بن گئی. بڑی بوڑھیاں اب گوری کی بجاۓ اپنے جوان بیٹوں پر نظر رکھنے لگیں کہ کہیں کوئی بہک نہ جائے. اگلے سال پھر گوری غائب ہو گئی چھ مہینے بعد واپسی پر پھر وہی بیان. نامعلوم اغوا کاروں کے نام پرچہ کٹا اور گوری نے اپنے من کا رانجھا راضی کر لیا. اب تو سال میں ایک بار بھاگنا گوری کے لئے واجب ہو چکا تھا. واپسی پر وہ اور اس کے چھوٹے بہن بھائی اغوا کی ایسی دردناک تصویر کشی کرتے کہ چاہنے والے یقین کر لیتے مگر آہستہ آہستہ یقین کے بت ٹوٹنے لگے گاؤں دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا ایک دھڑا گوری کو اسکے سابقہ اور موجودہ بیانات کے تناظر میں جھوٹی\’ اوباش\’ شوقین مزاج اور گاؤں کی عزت پر داغ سمجھتا جب کہ دوسرا نظریاتی دھڑا جس کی نظریں گوری کی ڈھلتی جوانی پر تھیں اسے معصوم \’ حالت کی ماری اور ضمیر کی قیدی ثابت کرنے پر مامور ہو گیا. گوری جب کبھی اپنے ڈھلتے حسن کی خیرات نکالتی تو سب سے پہلے اپنے انہی نظریاتی امیدواروں کو فیض یاب کرتی. عادت سے مجبور گوری اپنی مرضی سے بھاگتی اور نامعلوم اغوا کاروں کے خلاف پرچے کٹواتی رہی. پولیس کو بھی معلوم تھا کہ سب جھوٹ ہے لیکن تھانیدار صاحب گوری کو اس کا جھوٹ بتانے اور اسے جھوٹ کی سزا دینے کی بجاۓ اسکے ساتھ شغل میلے میں مصروف رہے . ان کو جب بھی گوری کی ضرورت پڑتی سرکاری جیپ بھیج کر اسے باعزت طریقے سے کبھی تھانے تو کبھی اپنے ڈیرے بلا لیتے جہاں گوری قانون کو سکون بہم فراہم کرتی. کبھی کبھی اوپر سے کارروائی کا خطرہ محسوس ہوتا تو سارے گاؤں کے سامنے گوری کے مکان پر چھاپہ مارا جاتا اس کے بہن بھائی گرفتار کر لئے جاتے لیکن گوری فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتی وہ بھی تھانیدار کی سرکاری جیپ پر جو چھاپے سے ایک دن پہلے اسے اٹھا کر کسی محفوظ مقام پہنچا آتی. گاؤں کے باسی بھی خوش کہ کاروائی ہو رہی ہے تھانیدار بھی شاداب کہ ڈیرہ آباد ہوا.گوری بھی خوش کہ گاؤں کی پنچایت سے لے کر چوپال تک اس کا ذکر ہو رہا تھا . گوری کا بھائی اپنے رشتے داروں کو ساتھ لئے گاؤں کے ایک ایک بندے کو یقین دلاتا پھر رہا تھا کہ اب گوری سے اس کا  کوئی تعلق نہیں ہے لیکن سب اسکی بات پر ایک قہقہہ لگا کے چل دیتے.

پورے گاؤں میں بالکل ویسی ہی صورت حال تھی جیسی آج کل پورے پاکستان میں ہے. ایم کیو ایم کی گوری گوروں کے دیس میں بیٹھی گاؤں کو گالیاں دے دلا رہی ہے. گاؤں کی گوری فرار ہونے کے کچھ عرصے بعد گھر واپس تو آ جاتی تھی لیکن ایم کیو ایم کے قائد تو ایسے فرار ہوۓ کہ واپس ہی نہیں آتے. باہر بیٹھے بیٹھے ان اغواکاروں کو گالیاں بکتے رہتے ہیں جن کے ڈیروں پر ساری ساری رات انہی کے لگائے گانوں پر تھرکتے رہتے تھے پنکھے میں نوٹ مارے جاتے جن کو وہی رشتے دار جمع کر کر کے تکیے کے استروں میں بھرا کرتے جو آج ان سے لاتعلقی کے اعلانات کر رہے ہیں. کیا لاتعلقی، کیا لاتعلقی کا شوربہ. فاروق ستار ایک وقت تک تو لوگوں کی رائے کو منقسم رکھ سکتے ہیں لیکن لمبے عرصے تک نہیں۔ بظاہر تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ ڈیرہ داروں نے بھی ایم کیو ایم کے سر سے ہاتھ اٹھا لئے ہیں. لیکن وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا. ہو سکتا ہے ابھی بھی کہیں انہی ڈیرہ داروں کے کسی دوسرے ڈیرے پر رقص جاری ہو. فاروق ستار لاکھ اصرار کرتے رہیں کہ اب انہیں قائد تحریک لکھا اور پکارا جائے کوئی ان کی بات پر کان نہیں دھرے گا. ایم کیو ایم کی تحریک کا ایک ہی قائد ہے جسے الطاف حسین کہتے ہیں ہر تحریک کا ایک ہی قائد ہوتا ہے جس طرح تحریک پاکستان کے ایک قائد تھے قائد اعظم ان کے بعد کوئی قائد نہیں آیا آئے تو شہید ملت ہی آئے. اب فیصلہ فاروق ستار اور ان کی اصلی تے نسلی ایم کیو ایم نے کرنا ہے کہ انہیں قیادت چاہئیے یا شہادت. یقین ہے میمن برادری کا کاروباری دماغ لونڈا قیادت اور شہادت کے درمیان سے کوئی نہ کوئی تیسرا شاید شراکت کا راستہ نکال لے. اور پھر یہ نعرہ مستانہ گلی گلی گونجنے لگے \’\’قائد کا ایک یار ہے جو فاروق ستار ہے\” اور پھر زندگی کے آخری زمانے میں فاروق میاں \”فلسفہ شراکت\” کے نام سے اپنی سوانح حیات لکھ کر تاریخ کا یا پھر تحریک کا یا پھر تاریک کا حصہ بن جائیں . شاید اس کتاب کے پہلے صفحے پر یہی لکھا ہو
\” میمن بچے بھی غضب ہوتے ہیں جس پہ مرتے ہیں اسے مار رکھتے ہیں میں بھی ایک میمن بچہ تھا جسے ایک ستم پیشہ ڈومنی نے مار رکھا تھا\”

مصطفیٰ آفریدی
Latest posts by مصطفیٰ آفریدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مصطفیٰ آفریدی

ناپا میں ایک سال پڑھنے کے بعد ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے جو آج تک لکھ رہا ہوں جس سے مجھے پیسے ملتے ہیں۔ اور کبھی کبھی افسانے لکھتا ہوں، جس سے مجھے خوشی ملتی ہے۔

mustafa-afridi has 22 posts and counting.See all posts by mustafa-afridi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments