انڈیا: خشک سالی کے سبب لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور


گاؤں

ہتکرواڈی میں گذشتہ تین برسوں سے اچھی بارش نہیں ہوئی ہے

انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے گاؤں میں 75 سالہ دگادو بیلدار روزانہ صبح اٹھ کر دال چاول کا ناشتہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے لیے کرنے کو کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔

گذشتہ تین برسوں سے بیلدار اپنے ایک کمرے کی جھونپڑی میں تنہا رہتے ہیں۔ ان کا گھر جنگلوں کے پاس پہاڑی گاؤں ہتکرواڈی میں ہے۔ قحط سالی نے ان کی اہلیہ اور تین بیٹوں کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔

زمین پر دراڑیں نظر آتی ہیں جبکہ کنویں سوکھ چکے ہیں۔ نہانے اور پینے کے لیے پانی نہیں ہے اور ان کے باجرے کے کھیت خالی پڑے ہیں۔

ان کے دو بیٹوں کو تقریباً 400 کلومیٹر کے فاصلے پر سنگلی کی ایک شوگر مل میں کام مل گیا ہے۔ یہ علاقہ گنے کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔ جبکہ ان کی بیوی تیسرے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی ہیں جو کہ وہاں سکول جاتا ہے۔ ان کے لیے ہتکرواڈی ایک تکلیف دہ یاد ہے۔

یہ بھی پڑھیے!

شادی کرنی ہے تو پانی کا ٹینکر لاؤ!

’کسانوں کی موت کو روکو‘

انڈیا کی ڈیم بنانے والی اماں

عمر کے ساتھ بیلدار اونچا سننے لگے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے اندھیرے کمرے میں پڑے رہتے ہیں۔

ان کے ایک پڑوسی گنیش سدگر کا کہنا ہے کہ ‘وہ بہت تنہا ہیں۔ تین سال سے وہ اپنے گھر والوں سے نہیں ملے۔ اور یہ سب پانی کی وجہ سے ہے۔’

دگادو بیلدار

دگادو بیلدار اپنے گھر کے سامنے

گلی کی دوسری طرف 75 سالہ کشن سدگر کے اکلوتے بیٹے نے تقریباً ایک دہائی قبل گھر چھوڑ دیا اور کہیں دور شوگر مل میں کام کرنے چلے گئے۔ وہ اپنی اہلیہ اور ایک کتے کے ساتھ رہتے ہیں۔ کشن سدگر نے بتایا کہ ‘میرا بیٹا بہ مشکل کبھی گھر آتا ہے۔ اور جب وہ آتا ہے تو دو تین دن میں جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں پانی نہیں ہے۔’

دو تین گھر چھوڑ کر ساگا بائی اپنی 14 سالہ گونگی اور بہری بیٹی پاروتی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کے واحد بیٹے اپپا نے برسوں پہلے فیکٹری میں کام کرنے کے لیے گھر چھوڑ دیا۔ ساگا بائی کہتی ہیں کہ ‘وہ شاید ہی کبھی گھر آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بارش ہوگی تو آؤں گا۔’

اور گاؤں کے واحد گریجویٹ گنیش سدگر کو شادی کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل رہی ہے کیونکہ ‘پانی کی کمی کے سبب کوئی بھی اس گاؤں میں آنا نہیں چاہتی ہے۔’

ہتکرواڈی تپتے ہوئے سورج کی زد میں آنے والے ضلعے بیڈ میں پڑتا ہے جو کہ بارش کی کمی کے سبب خشک سالی کا شکار ہے۔ ابھی بہت وقت نہیں گزرا جب اس 125 گھروں والے گاؤں میں 1200 افراد رہا کرتے تھے۔

لیکن اب ان میں سے نصف سے زیادہ گاؤں چھوڑ چکے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد مردوں کی ہے۔ ان کے گھربند پڑے ہیں۔ یہ پانی کے مارے پناہ گزین دور دراز کے شہروں اور قصبوں میں جا کر رہنے لگے ہیں، وہ گنے کے کھیت اور شوگر ملوں یا تعمیراتی پروجیکٹس میں کام کرتے یا پھر ٹیکسی چلاتے ہیں۔

گاؤں کے 42 سالہ مکھیا بھیم راؤ بیلدار کہتے ہیں کہ ‘یہاں پانی نہیں ہے تو پھر لوگ یہاں کیوں ٹھہریں؟’

مقفل گھر

یشونت صاحب راؤ سدگر نے اپنے گھر کو مقفل کر کے ایک سال قبل گاؤں چھوڑ دیا

جب میں گاؤں پہنچا اس سے پچھلی رات وہاں تھوڑی بارش ہوئی تھی۔ دوسری صبح آسمان میں چھائے کالے بادل مزید بارش کی نوید دے رہے تھے۔ لیکن پھر دوپہر تک آسمان تپنے لگا اور بارش کی امید بھی ختم ہو گئی۔ یہاں ایسے ہی امیدیں دم توڑتی ہیں۔ تین سال قبل یہاں ‘مناسب بارش’ ہوئی تھی۔

ظالم موسم گرما نے ہتکرواڈی سے زندگی چھین لی ہے۔ زمین بھوری پڑ چکی ہے اور اس میں شگاف نظر آتے ہیں۔ کپاس اور باجرے کے کھیت سوکھے پڑے ہیں۔ گاؤں کے 35 کنوؤں میں سے صرف دو کنوؤں میں پانی بچا ہے۔ وہاں تقریبا ایک درجن بور ویل ہیں لیکن زمین میں پانی کی سطح کم ہونے سے پانی کے لیے انھیں مزید گہرے 650 فٹ تک کھودنا پڑ رہا ہے۔

ذرا سی ہوا بھی بجلی کے منقطع ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے بور ویل بھی اکثر کام نہیں کرتے ہیں۔

پانی کے ٹینکرز ہی اس خشک سالی کے شکار علاقوں کی شہ رگ ہیں لیکن وہ بھی تنگ راستوں کی خستہ حالت کی وجہ سے اس علاقے میں پانی کی فراہمی کے لیے تیار نہیں۔

مویشیوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے 300 بھینسوں کو چارہ کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کے مالک انھیں اپنے ساتھ باندھ کر رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے!

‘سوا ارب افراد کو خوراک، پانی کی کمی اور افلاس کا خطرہ’

قحط زدہ زندگی کے روپ

حکومت کی نئی سکیم کے تحت گاؤں میں 75 نئے بیت الخلا بنے ہیں تاکہ کھلے میں رفع حاجت نہ کیا جائے لیکن وہ پانی کی کمی کے سبب استعمال میں نہیں ہیں۔ زیادہ تر گاؤں والے اپنے امیر پڑوسیوں سے پانی حاصل کرتے ہیں جن کے پاس اپنے بور ویل ہیں۔

بور ویل

پانی کا واحد ذریعہ بور ویل ہے جو بجلی کی کمی کے سبب کم ہی کام کرتا ہے

بیڈ کے نقشے پر ہتکرواڈی ایک دھبہ ہے۔ اس علاقے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد قحط سالی کا شکار ہیں۔ وہاں جنگلوں میں تیزی سے کمی ہو رہی اور اب صرف دو فیصد جنگل ہی بچے ہیں۔ جبکہ صرف 16 فیصد کھیتوں میں آبپاشی ہوئی ہے۔ جب مون سون کی اچھی بارشیں ہوتی ہیں تو یہاں آباد ساڑھے چھ لاکھ کسان، کپاس، سویا بین، گنے، بروا اور باجرے کی فصل اگاتے ہیں۔

گذشتہ چھ سالوں سے بیڈ میں مسلسل بارش میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ غیر مستقل اور بے موسم بارش کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ دس دنوں تک بارش کا نہ ہونا بھی فصلوں کی بربادی کے لیے کافی ہے۔

گذشتہ برس کافی بارش ہوئی تھی اور 699 ملی میٹر سالانہ اوسط سے 99 فیصد بارشیں ہوئی تھیں لیکن پھر بھی فصلیں نہیں ہو سکیں کیونکہ ان میں چار بڑے وقفے ہو گئے تھے۔

اس علاقے کا اہم دریا گوداوری سوکھ رہا ہے۔ بیڈ کے چھوٹے بڑے تمام 140 ڈیمز سوکھ چکے ہیں۔ وہاں کے دو بڑے ڈیمز میں حکام کے مطابق نہ ہونے کے برابر پانی ہے جو کہ کیچڑ آلود ہے۔ یہ وہ پانی ہے جہاں سے تالابوں میں پمپ کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے ایک ہزار ٹینکر پانی لے جاتے ہیں۔ ان کی آلودگی کو کلورین سے صاف کیا جاتا ہے اور پھر 300 مختلف پیاسے دیہاتوں میں انھیں پہنچایا جاتا ہے۔

کنواں

چارے کی کمی کے سبب بیڈ کے آٹھ لاکھ مویشیوں میں سے نصف کو تقریبا 600 مویشی کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے حکومت کی سکیم کے تحت کام کرنا شروع کیا ہے اور حکام لوگوں کو مفلسی سے بچانے کے لیے اسے مزید لوگوں کے لیے کھول رہے ہیں۔

خشک سالی نے شہر کے لوگوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ بیڈ شہر کے ڈھائی لاکھ باشندوں کو ایک ہفتے میں اور کبھی کبھی دو ہفتوں میں ایک ہی بار پانی مل رہا ہے۔

بیڈ کے سب سے سینیئر اہلکار آستک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ ‘یہ دہائیوں میں سب سے خراب خشک سالی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے پینے کا پانی جولائی تک بچا رہے اور اس کے بعد بہت بارش کے آثار ہیں۔’

مہاراشٹر کو مفلوج کرنے والی خشک سالی اس وسیع موسمیاتی آفت کا ایک حصہ ہے جس نے انڈیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کی 40 فیصد زمین کو خشک سالی کا سامنا ہے جبکہ کم سے کم دس ریاستوں کے پانچ کروڑ افراد اس سے بری طرح متاثر ہیں۔

سگا بائی

ساگا بائی کہتی ہیں کہ ان کا بیٹا کہتا ہے کہ بارش ہوگی تو آؤں گا

دیہی علاقوں میں کام کرنے والے اور ‘پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا’ کے مدیر پی سائیناتھ کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی ‘دھماکہ خیز مسئلہ’ ہے۔ ان کے مطابق محض خشک سالی ہی اس بحران کی واحد وجہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پانی کی تقسیم اور غریبوں کی قیمت پر امیروں کو پانی پہنچانا بھی اس میں شامل ہے۔

‘پانی کو کسانوں سے لے کر صنعتوں میں پہنچانا، غذائی فصل سے لے کر پانی پینے والی نقدی فصلوں میں دینا، دیہی علاقے سے لے کر شہری علاقوں کو دینا، گزر بسر کرنے سے لے کر لائف سٹائل کے لیے شہروں کے سوئمنگ پول کو دینا بھی اس میں شامل ہے۔’

تمام تصاویر مانسی تھپلیال نے لی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp