یہاں فرض شناسی کی سزا ملتی ہے


کسی کام کے سلسلے میں صدر راولپنڈی جا رہا تھا۔ حکمرانوں کے شہر اسلام آباد کی حدود سے نکل کر راولپنڈی شہر میں داخل ہوا ہی تھا کہ فیض آباد پُل کے نیچے کھڑے ٹریفک پولیس کے سارجنٹ نے رکنے کا اشارہ دیا۔

سارجنٹ کے اشارہ کرنے پر میرا دائیں پاؤں فوری بریک پر گیا اور گاڑی چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ رُک گئی۔ دوران ڈرائیونگ میری کوشش ہوتی ہے کہ کبھی قانون کی خلاف ورزی نہ کروں۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کیا کہ جان سکوں کس قانون کی خلاف ورزی میں مجھے رکنے کے لیے کہا گیا سارجنٹ نے کھڑکی سے تھوڑا اندر جھانک کر پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟ جواب دیا صدر ٹریفک سارجنٹ بولا مریڑ چوک تک جانا ہے مجھے ساتھ لے چلیں میں نے کہا جی بیٹھ جائیں۔
سارجنٹ گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔

میں چونکہ سڑک چھاپ صحافی ٹھہرا کوشش ہوتی ہے کہ عامی سے ملوں اور ان کے مسائل جاننے کی کوشش کروں اس فارمولا پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک لمعے کو سوچا کہ دس پندرہ منٹ کے ایک ساتھ سفر میں ان سے جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ دوران ڈیوٹی انھیں کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور عوام کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔

سارجنٹ کاشف (فرضی نام) سے اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنا مدعا بیان کیا تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد انھوں نے بتانا شروع کیا کہ ہم دھوپ، بارش، اندھی اور طوفان میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مگر 95 فیصد لوگوں کا رویہ توہین آمیز ہوتا ہے۔

مہذب قومیں ملکی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرتی ہیں اگر کسی شہری سے دوران ڈرائیونگ غلطی ہو جائے تو وہ شرمسار ہوتا ہے مگر یہاں سب اُلٹ ہے۔
کاشف نے بتایا اشارہ توڑنے، سیٹ بیلٹ نہ بندھنے پر اور بغیر نمبر کسی گاڑی کو روکا جائے تو ہمیں آگے سے گالیاں کھانے کو ملتی ہیں کہ ہمیں کیوں روکا گیا؟

کاشف نے بتایا کہ وکلاء اور آرمی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کا ہمارے ساتھ رویہ توہین آمیز ہوتا ہے۔
صحافیوں، انجمن تاجران کے نمائندے اور یونین کونسلز کے ناظمین اُن کے آگے کارندے بھی ہم پر رعب و دبدبہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم جب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کسی شہری کی گاڑی روکتے ہیں تو پھر مختلف جہگوں سے فون کروائے جاتے ہیں۔ ہم نے ملک کے آئین اور قانون کے تحفظ کا حلف اُٹھایا ہوتا ہے۔ جب چالان کرتے ہیں تو ہمیں سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

کاشف نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ایک بار میں کسی جگہ ڈیوٹی دے رہا تھا وہاں سڑک کی مرمت ہو رہی تھی اور ٹریفک کا بہاؤ ایک ہی سڑک پر تھا۔ ایک طرف میرا ساتھی اور دوسری طرف میں کھڑا ہو کر ٹریفک کو رواں رکھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب کی گاڑی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیچ سڑک کے آ کر کھڑی ہو گئی جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہو کر رہ گئی۔ اُن صاحب نے بتایا کہ میں (ر) کمشنر راولپنڈی ہوں اور اس وقت صوبائی محتسب ہوں مجھے پروٹوکول کے ساتھ جانے دیا جائے۔ ہم نے کہا کہ آپ کا چالان کریں گے کیونکہ آپ نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور لوگوں کو تکلیف دی ہے۔ میں نے اُن کا چالان کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے سئنیرز اس عمل پر ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہوا اس کے برعکس چیف ٹریفک پولیس نے مجھے کال کر کے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے میرا اور میرے ساتھی کا تبادلہ مری کر دیا۔

کاشف نے ایک صحافی کے متعلق دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک بار ایک صحافی کی موٹر بائک بغیر کاغذات روکی بائک پر اپلائنڈ فار کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ میں نے بائک کا میٹر دیکھا تو موٹر بائک 22 ہزار کلومیٹر چلی ہوئی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ موٹر بائک رجسٹرڈ کیوں نہیں کروائی تو اُس نے جواب دیا کہ ابھی اپلائیڈ فار ہے۔ اندازہ کریں کہ پاکستان سے امریکہ 12 ہزار کلومیٹر ترکی 5 ہزار کلومیٹر اور لندن 8 ہزار کلو میٹر ہے اور صحافی کا موٹر بائک 22 ہزار کلومیٹر چلنے پر بھی ابھی اپلائیڈ فار ہے، اس کا چالان کیا اور بائک بند کر دیا جس کا انعام ہمیں معطلی کی صورت میں ملا۔

کاشف کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہ سارے لوگ بُرے ہیں بہت اچھے لوگوں سے بھی ہمارا واسطہ پڑتا ہے جب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اُنھیں روکتے ہیں وہ نہ صرف شرمسار ہوتے ہیں بلکہ ہم سے وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔

کاشف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا جب تک ہم اپنے رویے نہیں بدلیں گے خود کو ”تبدیلی“ ، (ہنستے ہوئے) یہ والی تبدیلی نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی کے لیے تیار نہیں کریں گے اس وقت تک ترقی نہیں کر سکیں گے۔ پاکستان کے ہر شہری کو اپنے آپ کو ملکی قوانین کے تابع کرنا ہو گا تب جا کر ملک ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑنا شروع ہو گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui