دلیر مودی جی، محب وطن دھونی اور گائے کا گوشت


مودی جی بہت دلیر ہیں۔ وہ ڈرتے کسی سے نہیں ہیں۔ وہ تو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے ان سات کروڑ بھارتی باشندوں سے نہیں ڈرتے جن کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں، سروں پر چھت نہیں، سکول اور ہسپتال کا تو سوچنا بھی دور کی بات ہے۔

مودی جی کو انڈیا کے آٹھ لاکھ سٹریٹ چلڈرن سے ڈر نہیں لگتا۔ یہ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں، نشہ کرتے ہیں، ہر طرح کے تشدد کا سامنا کرتے ہیں اور اکثر بے وقت سستی موت مارے جاتے ہیں۔ لیکن مودی جی نہ تو ان سے ڈرتے ہیں اور نہ ان کی ماؤں سے ڈرتے ہیں جو اپنی باقی زندگی اپنے بچوں کی راہ تکتے گزار دیتی ہیں۔

مودی جی کو انڈیا میں خوار ہونے والی تیس لاکھ سیکس ورکرز سے ڈر نہیں لگتا جن میں دس لاکھ سے زائد تو بچیاں ہیں یعنی ان کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں اور وہ چند روپوں کی خاطر اجنبی مردوں کی جنسی ہوس کو بجھانے پر لگا دی گئی ہیں۔

مودی جی کو ان ایک کروڑ انڈین لڑکیوں سے ڈر نہیں لگتا جن کو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی شادی کے عذاب میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

سب سے بڑھ کر مودی جی ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کی اس ذہنی پسماندگی سے بھی نہیں ڈرتے جس کے تحت بھارت میں کروڑوں لوگ خیالی کہانیوں اور دیو مالائی قصوں کو سائنسی حقیقت سمجھتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ہزاروں سال پہلے پلاسٹک سرجری ہوتی تھی اور سات ہزار سال پہلے انڈیا کو سری لنکا سے ملانے کے لیے سمندر کے اوپر تیس میل لمبا ایک پل موجود تھا۔ یہ ذہنی پستی صرف دیومالائی قصوں کو سائنسی حقیقت سمجھنے اور بت پرستی تک محدود نہیں بلکہ عورت دشمنی بھی اسی کا حصہ ہے۔

مودی جی کی اپنی بیوی پچاس سال سے مودی جی کے زندہ ہوتے ہوئے بھی ایک کنواری بیوہ کی زندگی گزارنے اور اس پر فخر کرنے پر مجبور ہے۔ پچاس سالہ شادی شدہ زندگی جس میں تین ماہ سے بھی کم عرصہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہی ہے لیکن پھر بھی شوہر پرستی پر ہی مجبور ہیں کیونکہ ایک اچھی ہندو عورت سے یہی توقع کی جاتی ہے۔ اسی روایتی معاشرتی دباؤ اور ذہنی پسماندگی کی وجہ سے بڑھاپے میں جب اسے موقع ملا تو اس کے لیے سب سے ضروری کام مقدس مذہبی مقامات کی زیارت ہی تھا۔ مودی جی اس ذاتی تجربے کی بنیاد پر بھی ہندوستان میں عورت دشمنی جیسی فرسودہ روایات کو ختم کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔ نہ جانے کتنی ایسی عورتیں فرسودہ مذہبی روایات کے بھیٹ چڑھ رہی ہوں گی لیکن مودی جی ان سے بالکل نہیں ڈرتے۔

مودی جی بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں اور تین کروڑ مسیحی ہندوستانیوں سے نہیں ڈرتے اسی لیے تو ہر وقت انہیں ہندو بنانے کے بندوبست کرتے رہتے ہیں۔ ہاں البتہ وہ ساڑھے چار ہزار یہودیوں سے ڈرتے ہیں اور ان کے بارے میں کبھی کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے۔

مودی جی جب ان ساری چیزوں سے نہیں ڈرتے تو پاکستان سے کیا ڈریں گے۔ وہ لڑیں گے اور پاکستان کو سبق سکھا کے رہیں گے۔ ظاہر ہے مودی جی بہت دلیر ہیں اسی لیے تو ہر وقت جنگ کی بات کرتے ہیں۔ وہ تو اس دن جہاز اڑا کر بھی خود ہی آنا چاہتے تھے لیکن انہیں بالا کوٹ کا راستہ معلوم نہیں تھا اسی لیے باقی پائلٹ بھیج دیے۔ وہ چند دنوں بعد ابھینندن کی جگہ بھی خود ہی آنا چاہتے تھے لیکن انہیں پاکستانی عوام کے تھپڑ گھونسے اور پاک فوج کی چائے پسند نہیں تھی اس لیے پھر ابھی نندن کو بھیج دیا۔

مودی جی بہت دلیر اور ڈھیٹ ہیں۔ وہ اپنی بھوکی ننگی جنتا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سینہ پھلا کر بات کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے سے ڈرتے نہیں ہیں۔

مودی جی اور ان کے ساتھی انڈین فوج کو اپنی مقدس گائے کا درجہ دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھلا ہو مہندر سنگھ دھونی کا کہ وہ انڈین فوج کو معاشرے میں ان کا صحیح مقام دلانے کے لیے اس کا امتیازی نشان اپنے گلووز پر سجاتے ہیں۔ دھونی بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ فوج کا ہی اعلی مقام ہونا چاہیے اسی سے بھارت کی شان بڑھتی ہے۔ اسی لیے تو ڈیفنس پر جتنا بھی خرچ کیا جائے کم ہے۔

بھاڑ میں گئیں چند کروڑ عورتیں، چند کروڑ بھوکے ننگے بچے اور کچھ اتنے ہی کروڑ اقلیتیں۔ اب کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ان سب کے نشان تو بندہ اپنے گلووز پر نہیں نا سجا سکتا۔

مودی جی بھی طالبان کی طرح بچیوں سے ڈرتے ہیں۔ خاص طور پر ان بھارتی بچیوں سے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے تو سارے انڈیا میں الٹراساؤنڈ مشینوں کا جال بچھا ہوا ہے اور ان مشینوں کے ذریعے بچیوں کو ماؤں کے پیٹ سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرتے ہیں۔ ایک انڈین خاتون منسٹر کے اندازے کے مطابق ہر روز دو ہزار بچیاں ماؤں کے پیٹ میں مار دی جاتی ہیں۔ چند سال پہلے تک حال یہ تھا کہ انڈیا میں ہر ہزار مردوں کے مقابلے میں نو سو چودہ عورتیں رہ گئی تھیں۔ بچیوں کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ان کو مار دینے سے تو بھارت کی بے عزتی نہیں ہوتی۔

مودی جی اس دنیا میں گائے کے غصے اور اگلے جہان میں نرکھ کی آگ سے ڈرتے ہیں۔

مودی جی صرف زندہ گائے سے ہی نہیں بلکہ اس کے گوشت سے بھی ڈرتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں اور مسیحوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ گائے کے گوشت سے دور رہیں۔ مودی کو لگتا ہے کہ گائے کا اگلا جنم کسی وقت بھی شروع ہو سکتا ہے اور اگر فرج یا شاپنگ بیگ میں پڑے ہوئے آدھا کلو گوشت سے شیر چیتا یا جنگلی بھینسا وغیرہ بن گئے اور شاپر یا فرج کو پھاڑ کے باہر نکل آئے تو نقصان ہو سکتا اس لیے گائے کے گوشت سے بچنا ضروری ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik