ہمارے زمینی پڑاؤ کی جھلکیاں – وٹنی میوزیم آف امریکن آرٹ میں


چلیں اماں! آپ کو عیدی دوں

ہماری بیٹی ہم سے مخاطب تھی ، ہماری حیرت دیکھ کے بولی

آپ میری مہمان ہیں اور عید کا دوسرا دن! چلیے، موج میلہ کریں

بیٹی ہماری رگ رگ سے واقف سو جب اس نے بیگ سے دو ٹکٹ نکالے تو قطعی حیرت نہیں ہوئی۔

ہم وٹنی میوزیم آف امریکن آرٹ جا رہے تھے!

نیویارک کے گرین وچ علاقے میں دریاۓ ہڈسن کے کنارے ایک جدید آرکیٹیکچر کی شاہکار سات منزلہ عمارت میں ہم داخل ہوئے

آپ کو معلوم ہے میں نے اس میوزیم کا انتخاب کیوں کیا؟

 یہ زندہ لوگوں کا میوزیم ہے

زندہ لوگوں کا میوزیم ” ہم حیرانی سے بولے

دیکھیے، آرٹسٹ ساری عمر دو باتوں کے لئے ترستا ہے، اس کے کام کی پہچان اور تعریف ہو جائے اور معاشی خوشحالی نصیب ہو. زیادہ تر اسے اپنی زندگی میں یہ سب کچھ نہیں مل پاتا سوائے چند خوش نصیبوں کے

اور واقعی ہماری آنکھوں کے سامنے بےشمار نام جگمگاے جو کسمپرسی میں گمنامی کی زندگی گزار کے چلے گئے اور وقت نے انہیں بعد میں پہچانا۔ ان کے نام کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے

یہ میوزیم ان آرٹسٹوں کا کام نمائش پہ لگاتا ہے جو ابھی اس دنیا میں موجود ہیں اور بے رحم زندگی کا گلہ لے کے چپ چاپ اگلے جہان نہیں چلے گئے

یہ آئیڈیا سوچا ایک خاتون مجسمہ ساز گرٹروڈ وینڈربلٹ وٹنی نے انیس سو سات میں، جب اس نے محسوس کیا کہ نئے فنکار اپنا کام پیش کرنے اور بیچنے میں ناکام رہتے ہیں۔

انیس سو چودہ میں گرٹروڈ نے وٹنی سٹوڈیو کے نام سے نئے فنکاروں کے کام کی نمائش کرنا شروع کی جو بہت بڑی مستند جگہوں پہ قبول نہیں کیا گیا تھا۔

جب گرٹروڈ نے پانچ سو فن پارے جمع کر لئے تو اس نے مشہور عالم میٹروپولیٹن میوزیم، نیو یارک کو یہ کولیکشن پیش کی۔ میٹرو پولیٹن میوزیم میں اساتذہ کا کام رکھا جاتا ہے سو ان کے انکار کے بعد گروٹروڈ نے اپنا میوزیم کھولنے کا سوچا اور انیس سو بتیس میں اس کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا

ہم جب بھی کسی میوزیم جاتے ہیں، ہم وہاں کا ذخیرہ تو شوق سے دیکھتے ہی ہیں لیکن وہاں آنے والے لوگ بھی ہماری توجہ کھینچتے ہیں

ہر رنگ، ہر نسل ، ہر عمر اور ہر طبقۂ فکر کے رنگا رنگ لوگ!

ماں باپ کا ہاتھ تھامے بچے، بانہوں میں بانہیں ڈالے جوڑے، سٹوڈنٹس کو رموز سمجھاتے استاد، زندگی کے سفر کی آخری سیڑھیوں پہ کھڑے آرٹ کے شیدائی، ابھی بھی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار عمر رسیدہ جوڑے، اور وہیل چیئر پہ گھومتے جسمانی یا ذہنی چیلنجز کا شکار لوگ۔

ہماری ایک ڈاکٹر دوست ہیں، کامیاب ڈاکٹر۔ لیکن انہوں نے اپنی چالیس سالہ زندگی میں کورس کی کتابوں کے باہر جھانک کے نہیں دیکھا، نہ ہی کسی کتاب سے سرگوشی اور نہ ہی کسی پینٹنگ سے مکالمہ۔

ہمیں یہ بات بہت حیران کرتی ہے اور جب میں ان میوزیمز میں ماں باپ کو چھوٹے چھوٹے بچوں کو پینٹنگز اور مجسمے دکھانا اور بنیادی باتیں سمجھاتا دیکھتی ہوں، تب سمجھ میں آتا ہے کہ کسی بھی پودے کو بڑا کرتے ہوئے اس کی آبیاری کیسے کی جاتی ہے۔ انسانی ذہن کی لا تعداد جہتوں کی گرہیں کھولنا کس قدر ضروری ہے اور زندگی کے سفر میں ہم بے اختیار مسافروں کے لئے یہ زاد راہ کس قدر اہم ہے۔

ہم میوزیم کی پانچویں منزل پہ پہلے پہنچے کہ ہماری صاحبزادی کو آرٹ انسٹالیشنز پہلے دیکھنا تھیں۔

 آرٹ انسٹالیشن ایک ایسی تخلیقی اپچ ہے جس میں فنکار اپنے اندر کے خیال کو باہر کی دنیا کے لئے کوئی نہ کوئی شکل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف روایتی اور غیر روایتی آرٹ میڈیم استعمال کرتے ہوۓ تھری ڈی اشکال ترتیب دی جاتی ہیں۔ آرٹسٹ عام سی چیزوں کو اپنے تخیل کی طاقت سے خاص معنی پہناتے اور دیکھنے والوں پہ سوچ کے نت نئے معنی وا کرتے ہیں۔

پہلے کمرے میں دو بہت ہی رنگا رنگ پینل لٹکے تھے ایک آرٹسٹ کے دو فن پارے، “People like us ” اور “Stand your ground”

 جیفری گبسن کا تعلق امریکہ کے قدیم باشندوں کی نسل سے ہے اور آرٹ کے استاد ہیں۔ اپنی ان انسٹالیشنز میں انہوں نے گھوسٹ ڈانس موومنٹ کو اجاگر کیا ہے۔ یہ تحریک انیسویں صدی میں شروع ہوئی، اس کا مقصد قدیم امریکی باشندوں کے پرامن احتجاج کو منظر عام پہ لانا تھا۔ ان اسٹالیشنز کے رنگین پیٹرن قدیم اور جدید کے امتزاج سے جنم لینے والی قوس قزح کی بات کرتے ہیں۔

ہال میں موسیقی سر بکھیر رہی تھی اور اشتیاق زدہ چہرے تصویریں کھینچ رہے تھے۔ بہت لوگ مگر کوئی افراتفری یا شور و غل نہیں۔ دھیمے لہجے میں باتیں اور آہستگی سے اٹھتے قدم۔

اگلے کمرے میں پہنچے

اماں! دیکھیں آپ کی جانی پہچانی چیز

اور کچھ دیر کے لئے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا یہ آرٹ گیلری ہے یا مشرق وسطی کا کوئی ائرپورٹ۔

 مشرق وسطی کے تیل اگلتے خطے کو گل و گلزار بنانے میں ہمارے لوگوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سخت موسم میں کھلے آسمان نیچے کام کرنا اور سختیاں برداشت کرنا ان ہی کا حوصلہ ہے۔ ان ملکوں سے گھر واپس جانا مزدور طبقے کے لئے ایک ایسی مسرت ہے جو ان کے چہروں پہ دور سے نظر آتی ہے۔ بچھڑے ہوؤں سے ملن کی سرخوشی اور دیس واپس جانے کے جوش کے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کے لئے خریدی گئی سوغاتیں۔

پرانے زمانوں میں دوبئی سے ٹیپ ریکاڈر آیا کرتے تھے، پھر ٹی وی اور وی سی آر آئے۔ لیکن اب بات موبائل فون، پلے سٹیشن، آئی پیڈ اور فوڈ فیکٹری تک پہنچ چکی ہے۔ کوئی بھی تحفہ ہو اس کو محفوظ کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے اردگرد کمبل لپیٹ کے رسیوں سے باندھ دیا جاۓ، آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔

اور نیویارک کی اس گیلری میں ایسا ہی سامان بندھا پڑھا تھا جو ہر آنے جانے والے کو تکتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی گھر جانے والے سے بچھڑ کے اب یہاں کسی کے انتظار میں ہے۔

قریب پہنچ کے معلوم ہوا کہ یہ کسی کے خواب، امیدیں اور انتظار کا بوجھ نہیں بلکہ تخلیق ہے مایا رتھ لی کی۔

مایا رتھ لی کورین آرٹسٹ ہیں، ان کا بچپن کھٹمنڈو میں گزرا اور انہوں نے بھی دیس پردس کے بیچ سفر کرتے گلف سے گھر لوٹنے والے نیپالی مزدوروں کا سامان بندھے دیکھا۔

انہوں نے اپنے بچپن کی یادوں کو اس آرٹ انسٹالیشن میں ڈھال کے دیکھنے والوں کو تیسری دنیا کی غربت دکھانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں ایک طرف تو وہ اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں اور دوسری طرف اپنے پیاروں کی محبتیں اور خواہشیں، پیٹ اور بھوک سے لڑتے ہوؤں کو بھی پیاری ہوتی ہیں۔

ہم بہت دیر اس آرٹ اسٹالیشن کو دیکھتے رہے۔ دیس کی یاد ہم پہ حملہ آور ہو چکی تھی۔ زندہ لوگوں کے میوزیم میں زندگی کے کچھ اور رنگ یاد آچکے تھے۔ یہ ایک اور دنیا تھی، اجنبی دنیا، جہاں کے رہنے والے سات سمندر پار کے رہنے والوں کے المیے کی مجبوری اور شدت کو چاہیں بھی تو محسوس نہیں کر سکتے۔

شام ڈھل رہی تھی اور وہاں صبح ہو رہی ہو گی ، ہم نے سوچا۔ سورج کے زیر سایہ تو روز ہی ہوتی ہے لیکن کیا واقعی صبح ہوتی ہے؟

غربت کے خاتمے کی صبح ! جہالت کے اندھیروں کو کاٹتی صبح ! طبقاتی کشمکش کو پچھاڑتی صبح ! کمزور کو انصاف دلاتی صبح! مزدور کے تلخ و گراں ایام کو شیرینئ فردا کی نوید سناتی صبح !

کافی پی، سوویئنر خریدا اور باہر کو چلے۔ کتاب حیات کے اوراق میں ایک اور منظر نقش ہو چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).