ہو سکتا ہے کہ کپتان واقعی عقل کُل ہو


اس سوال کا جواب تو وقت ہی دے گا کہ کہ عمران خان اپنی جذباتی تقریر وں سے بھوکے عوام کو کب تک مسلسل فریب میں مبتلا رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔ تاہم گزشتہ چند ماہ کے دوران جس تسلسل سے حکومت کو اس کی معاشی اور سیاسی حکمت عملی کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے، حکومت نے اسی شدت سے اسی راستے پر چلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بجٹ آنے سے پہلے آصف زرداری اور بجٹ پیش کرنے سے چند گھنٹے پہلے حمزہ شہباز کی گرفتاری جیسے واقعات اور ان پر حکومت کے وزرا کے زور دار بیانات سے کبھی تو یہ شبہ بھی ہونے لگتا ہے کہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ باقی سب لوگ غلط ہوں اور کپتان ہی درست اندازہ قائم کر رہا ہو۔

یوں بھی عمران خان نے اب روحانی معاملات میں بھی دسترس حاصل کرلی ہے۔ وہ 1992 میں کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر عملی طور سے ناممکن کو ممکن بنانے کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ مخالفین تو اس بات سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن موجودہ حکومت کے سر پر سایہکیے ہوئے عسکری قیادت تو پوری طرح عمران خان کے وجدان اور ان کے خواب کے سچا ہونے پر اعتبارکیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی بجٹ میں کمی کو بھی نہایت خوش دلی سے قبول کرلیا گیا اور اب ملک کی تمام اپوزیشن کے ساتھ براہ راست جنگ کے طریقہ کو بھی حکومت کی درست حکمت عملی سمجھا جا رہا ہے۔

ماہرین تو یہ کہتے ہیں کہ سیاسی بے چینی اور معاشی اضطراب کے ماحول میں نہ پیداوار بڑھے گی، نہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور نہ ہی حکومت کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا۔ لیکن عمران خان نے آج قوم کے نام اپنے خطاب میں ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آچکا ہے، جہاں چئیرمین نیب خودمختار اور عدالتیں آزاد ہیں۔ اسی لئے حکومت جسٹس (ر) جاوید اقبال کی اخلاق باختگی کی ٹھوس شکایات کے باوجود ریفرنس بھیجنے پر آمادہ نہیں ہے اور ایک ایسے جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے میں دیر نہیں کی گئی جو اپنی پیشہ وارانہ لیاقت اور غیر جانبداری و جرات کی وجہ سے قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے ملک بھر کے وکیل اس معاملہ پر سیخ پا ہیں۔ تاہم جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ عدالتیں آزاد ہیں تو محض ایک ریفرنس کی بنیاد پر تو ان کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کی ’لیاقت اور خودمختاری‘ کا امتحان لینے کے لئے یہ ’مشکل امتحانی پرچہ‘ اسے روانہ کیا ہو۔

اس پرچہ کا جواب تو 14 جون کو سامنے آجائے گا لیکن گزشتہ دو روز کے واقعات اور آج بجٹ پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم کی طرف سے انتخابی ریلی نما لب و لہجہ میں قوم سے خطاب سے یہ واضح ہورہا ہے کہ سیاسی پنڈتوں کے سارے اندازے الٹے پڑ رہے ہیں۔ سول ملٹری اتحاد و اشتراک کا جو مظاہرہ قوم کے سامنے پیش کیا جارہا ہے، مختصراً اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ’تمام سابقہ قیادت کو غیر مؤثر کیا جائے۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انہیں بدعنوانی کے مقدمات میں طویل سزائیں دلوا کر منظر سے غائب کردیا جائے۔ خاندانی سیاست کرنے والے نوجوان لیڈروں کو بھی مسترد کیا جائے۔ سیاست کو ان سے بھی پاک کرنا ضروری ہے۔ ایک مرتبہ ان عناصر سے جان چھوٹ گئی تو ملک میں خود ہی سکون و اطمینان کی فضا واپس آجائے گی۔ پھر ترقی کا گھوڑا پوری رفتار سے دوڑنے لگے گا‘ ۔

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت، 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح بار بار ہارنے کے باوجود مقابلے میں جگہ بنائے رکھنے کی کوشش اور انتظار میں ہے۔ اسے امید ہے کہ ابتدائی آٹھ میچوں میں نصف ہارنے کے باوجود اسے فائنل کھیلنے اور جیتنے کا موقع مل جائے گا۔

عام لوگ یا مبصرین خواہ کرکٹ کی اس انہونی کو سیاست میں ممکن نہ سمجھتے ہوں لیکن ایک پیج والی قوتوں کو پورا بھروسہ ہے کہ عمراں خان کا عقل کل ہونے کا دعویٰ شک و شبے سے بالا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali