کراچی سیاست کا فلاپ ہیرو فاروق ستار


\"alamdar

آج کل پاکستان میں ایک تھرلر فلم چلائی جارہی ہے جس کے پہلے وقفے سے بھی پہلے آس کی سنسنی خیزی ایک چوتھائی بھی نہیں رہ گئی اور ہال بھی خالی ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اب فلم کا ہیرو سلطان راہی کی جگہ علی اعجاز کو بنایا جائے گا تو صرف اسی فلم کا ہی نہیں نہیں پوری فلم انڈسٹری کا بستر تو گول ہوگا ہی۔ برادرم فاروق ستار جتنا بھی چاہیں بھائی بننے سے تو رہے ۔ اب لگتا ہے فلم ڈائریکٹر بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اس قدر مہنگی فلم کو مکمل فلاپ ہونے سے کیسے بچایا جائے اس لئے سینما گھر والے شاید وقفے سے کچھ پہلے ہی اس طرح کے ٹوٹے نہ چلا دیں جو ماضی خاص طور پر ضیاء الحق کے دور میں بس اچانک ہی چلا دئیے جاتے تھے کہ تماشائی بور ہو کر فرنیچر نہ توڈنا شروع کر دیں ۔

اس دور میں اکثر علتی تماشائی اسی بنا پر اور اسی آس میں ہی سینما جانے پر خود کو مجبور پانے تھے لیکن زیادہ عرصہ ٹوٹے بازی کا یہ ٹوٹکا چلا نہیں اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کہ سینما انڈسٹری کا بستر ہی گول ہو گیا اور سمجھدار لوگوں نے سیاست گری کا پیشہ اختیار کرلیا اور سرفراز ہوئے۔ خیر بات فاروق ستار کی ہو رہی تھی ممکن ہے وہ اپنے چھریرے جسم اور پھرتی کے باعث سینما کے اچھے اور ہاؤس فل دنوں میں انتہا کے رش میں خود اپنے اور اپنےدوستوں فلم کے ٹکٹ تماشائیوں کے کندھوں کے اوپر اوپر سے جا کر لے آنے کے مہر رہے ہوں لیکن فلم کا ہیرو ہونا الگ بات ہے۔

فاروق ستار کو حالات نے ہیرو بننے کا موقع دے ہی دیا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حالیہ فلم کی فلم باکس آفس پر ہٹ نہیں ہو رہی لیکن یار لوگ کچھ مزےدار ٹوٹوں کی امید میں ٹی وی چینلوں کو تاڑ رہے ہیں اور ریموٹ سے ان کا ہاتھ اٹھتا ہی نہیں۔ ٹی وی اینکرز بس سٹاپ پر کھڑی خالی بس کے کنڈکٹر کی طرح باربار بس کے دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارتے ہوئے تھاپ لگاکر چلو استاد جی کی آوزیں لگانے کے انداز میں چیخ چیخ کر بزعم خود اپنے پروگرام کی ریٹنگ پڑھانے کے لئے پھاوے ہو رہے ہیں لیکن ایک طرف فاروق ستار مسلسل پریس کانفرنسوں اور انٹرویوز کے باوجود پکے ٹھکے بھائی بن کر ہی نہیں دے رہے اور ان کے لہجے کی ازلی لجاجت تماشائیوں کا سارا مزہ کرکرا کر رہی ہے۔

اکسانے کے باوجود وہ شیر شاید اس لئے بھی نہیں بن رہے کہ ن لیگ سے گٹھ جوڑ کا الزام سچ ہی ثابت نہ ہو جائے حالانکہ کہ بے چارے شریفوں کا اجارہ تو صرف شیر کی تصویر تک ہی ہے اصل شیر کی تو ایک دھاڑ ہی ایک شریف آدمی کو مشرف بہ دربدری کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا چشم نظارہ بیں یہ دیکھ رہی ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو شیر بننے کےلئے اکسانے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن کئی واقفان درون خانہ اور سابق متحدئیے مثال کے طور پر آقائے مصطفے کمال اور فاروق ستار کے نام نہاد اعلان لاتعلقی پریس کانفرنس کے ایک شریک اور ایم کیو ایم کے اب سابق ایم این اے آصف حسنین یہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں کہ ہمارے ممدوح ایسی احمقانہ بات سوچ بھی سکتے ہیں کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم میں شیر کی زندگی واقعی ایک دن کی ہوتی ہے۔ ۔۔ اگرچہ غلطی سے یا اتفاق سے بھی شیر بننے کے خواب دیکھنے والے کی زندگی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ۔

تفنن پرطرف تادم تحریر صورت احوال یہ ہے کہ فاروق ستار مسلسل ایم کیو ایم پاکستان کا خود مختار سربراہ ہو نے کے دعوے کئے جارہے ہیں ۔ متحدہ کے بارے میں ان پر اب منکشف ہوا ہے کہ یہ جماعت تو پاکستان میں خود ان کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور وہی اس کے اصلی اور وڈے سربراہ ہیں اگرچہ بہرصورت یہ بھی بالتکرار اعتراف ہے کہ اس کے بانی مبانی الطاف بھائی ہی ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔۔ یہ سن کر ایک ستم ظریف نے سوال اٹھایا کہ۔۔ تو کیا آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں کو بھی ان کا کھویا ہوا مقام دلوایا جانا چاہئے؟ کیونکہ آچ کتنے لوگ ہیں جو ان کا نام بھی جانتے ہیں؟

ڈائریکٹر پھر بھی سسپنس پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ابھی کل ہی پنجاب کی سیاست کے نوری نت اور وزیر قانون جن کو علامہ قبلہ طاہرالقادری نورا بنادینے کی پیشین گوئیاں اور دھمکیاں دے رہے ہیں مہمان اداکار کے طور پر نمودار ہوئے اور کہا کہ متحدہ کے دفاتر گرانا اور سیل کرنا غیر قانونی اقدام ہے ۔ قانون تو پنجاب کے وزیر قانون کے گھر کی لونڈی ہوتا ہے اس لئے وزیراعلی سے وزیراعظم تک کبھی کوئی ان کے کہے کی تردید نہیں کرتا سو اب بھی ہر طرف سکوت ہے۔ انکی بات اس بار ٹھیک بھی ہے کیوں کہ کمزور سکرپٹ رائیٹر نے اس مرحلے میں جواز کے خانے کو خالی چھوڑ دیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ پروڈیوسر کو اپنی طاقت اور گلیمر پر حد سے زیادہ بھروسہ ہو یا پھر تماشاگروں اور تماشائیوں کے تفنن طبع کے لئے اس نے کوئی خاص ٹوٹے ہی چھپا رکھے ہوں ۔ لیکن فلم پہرحال کسی ڈھیلے ڈھالنے سکرپٹ پر رک رک کر آگے بڑھ رہی ہے جس کی ایک قسط بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے گزشتہ روز ہونے والے انتخابات بھی ہیں جن کے نتائج سبھی کو معلوم تھے لیکن ان میں کچھ زبانی کلامی گنجل ڈال کر تھوڑا تجسس پیدا کیا گیا۔

ہوا وہی جو معلوم تھا۔ کراچی کے میئر مشہور زمانہ وسیم اختر صاحب منتخب ہوگئے اور حیدر آباد میرپور خاص کے میئر ڈپٹی میئر اور دیگرکئی ٹاونز کے ناظم اور نائب ناظم وغیرہ بھی وہی لوگ منتخب ہوگئے جنھوں نے الطاف بھائی کی وفاداری کا مشہور زمانہ حلف اٹھایا ہوا تھا شاید اصل پروڈیوسرز نے خوب دیکھ بھال لیا ہوگا کہ اب ان سب کے مونہہ میں کتنے دانت ہیں ۔ وسیم اختر صاحب نے تو منتخب ہوتے ہی کم از کم اپنے سامنے کے دانت سب کو دکھا دیئے اور جئے متحدہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے جیئے بھٹو اور جیئے عمران کے نعرے بھی لگا دیئےعین اس لمحے برادرم فاروق ستار پتہ نہیں ایڑیوں کے بل اچھل اچھل ل کر درازقد نو منتخب میئر کے کان میں کیا سرگوشیاں کر رہے تھے اور نامعلوم اپنے نو ایجاد نعروں کے شور میں انہوں نے ہمارے ہیرو کی بات سنی اور سمجھی بھی یا نہیں ۔ ابھی کھوجیوں کو اس بات کا بھی سراغ نہیں ملا کہ یہ نعرے وہ جیل سے لائے تھے یا یہ نعرے واٹس اپ پر لند ن سے آئے تھے کہ انڈی جینس تھے یعنی ایجاد بندہ تھے یعنی فاروق ستار کی رابطہ کمیٹی سے منظور شدہ تھے جس کا اگرچہ اس دوران میں کوئی اجلاس ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ۔ کھوجیوں کے لئے اہم سوال یہ بھی ہے کہ۔ پتہ لگائیں کہ وسیم اختر الطاف بھائی کی بیعت کرنے سے قبل کس کے ساتھ تھے ؟ اگر تو وہ اور ان کے بڑوں میں کوئی بھٹو کا جیالا رہا تھا تو پھر فاروق ستار کے لئے پریشانی کی بات ہو سکتی ہے کیوں کہ وسیم بھائی کے جیے بھٹو کے نعرے میں ہمیں کافی کچھ اوریجنیلیٹی محسوس ہوئی ۔ ان کا یہ نعرہ گیم چینجر بھی ہوسکتا ہے بشرطیکہ کہ سابق صدر زرداری واقعی سابق قرار دے دئیے جائیں اور مستقل ولایت میں قیام فرمائیں ۔

خوب گزرے گی جب مل بیٹھیں گے دیوانے دو

اگر ایسا ہو جائے تو پروفیسر شہسوار ہوشیارپوری نے شطرنج کی اچھی سی بساط اور معقول تعداد میں پٹے ہوئے مہرے گفٹ کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ موقع اچھا ہے ورنہ پروفیسر صاحب کو مکرتے دیر نہیں لگتی ۔ ڈاکتر فاروق ستار بھی موقع سے فائیدہ اٹھا سکتے کیوں کہ فلم مکمل فلاپ ہوئی تو ۔ جس کے امکانات کافی واضح لگتے ہیں۔ بشرط زندگی بیٹھنا تو ڈاکٹر صاحب نے گھر ہی ہے کیوں کہ تیس پینتیس سال سیاست میں رہ کر بندہ طبابت تو ایک طرف رہی خود اپنی اصلیت بھول جاتا ہے۔

ڈاکٹر علمدار حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر علمدار حسین بخاری

ڈاکٹر علم دار حسین بخاری بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بطور پروفیسر اور ڈائریکٹر سرائیکی ایریا سٹڈی سینٹر ریٹائرڈ ہوئے ۔۔ ایک عرصہ صحافت سے بھی تعلق رہا کالم نویسی کی. تنقیدی و تحقیقی مقالات تحریر کئے. افسانہ نگاری و ناول نگاری کی ۔۔ آج کل تصنیف و تالیف پر توجہ ہے۔

alamdar-hussain-bukhari has 5 posts and counting.See all posts by alamdar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments