فادرز ڈے پر والد کو خدا حافظ کہنے والی بیٹی


جو مرد اور عورتیں اپنے والد کی دل کی گہرائیوں سے عزت کرتے ہیں، ان سے بے پناہ پیار کرتے ہیں اور ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں وہ فادرز ڈے پر اپنے والد کو کارڈ بھیجتے ہیں‘ تحفے دیتے ہیں اور انہیں لنچ یا ڈنر کی دعوت دیتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اپنے والد سے ناراض ہیں، ان سے غصے میں ہیں یا ان سے نفرت کرتے ہیں وہ اپنے والد کو فادرز ڈے پر فون تک نہیں کرتے۔ آج میں آپ کو ایک ایسی ہی عورت کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔

میری ایک مریضہ 33 سالہ سوزن [یہ ان کا فرضی نام ہے] کافی عرصے تک ذہنی طور پر پریشان رہی۔ آج سے دو سال پیشتر ایک رات سونے سے پہلے سوزن کا سانس پھولنے لگا، پسینہ آنے لگا اور دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ سوزن کو فکر ہوئی کہ کہیں اسے ہارٹ اٹیک نہ ہو رہا ہو۔ وہ علاج کے لیے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ گئی۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے اور ای سی جی ECGکے ٹیسٹ کے بعد کہا کہ دل تو صحتمند ہے لیکن انہیں پینک اٹیک ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے انہیں ایک دوا لورازیپام LORAZEPAM دی اور کہا کہ اس دوا کو اپنی زبان کے نیچے رکھیں۔ ایسا کرنے سے سوزن کو کافی افاقہ ہوا۔

چند ہفتوں میں جب سوزن کو تین اور پینک اٹیک ہوئے تو سوزن اپنی فیمیلی ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا کہ اسے ایک ماہرِ نفسیات کے پاس بھیجا جائے تا کہ اس کا علاج ادویہ کی بجائے تھیریپی سے ہو۔ اس ڈاکٹر نے سوزن کو میرے پاس بھیجا۔

سوزن نے مجھے بتایا کہ وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔ اس کا ایک اچھا سا جاب ہے، محبت کرنے والا شوہر ہے اور پیار کرنے والد دوست ہیں۔ سوزن کو سمجھ ہی نہ آیا کہ آخر اسے ایسا کیا نفسیاتی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اسے پینک اٹیک ہوتے ہیں۔

تھیریپی کے دوران میں نے سوزن کو بتایا کہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا تعلق انسان کے لاشعور سے ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کے اچھے سے خوبصورت گھر کے نیچے ایک بھدا سا تہہ خانہ ہو جس میں کچھ پریشان کن چیزیں پڑی ہوں۔ وہ تہہ خانہ مقفل ہو اور گھر والوں کو خبر ہی نہ ہو کہ وہاں برسوں سے کیا کوڑ کباڑ پڑا ہے۔ انسان کا لاشعور بھی اس تاریک تہہ خانے کی طرح ہے۔ میں نے سوزن کو مشورہ دیا کہ وہ ایک ڈائری رکھے اور اس میں اپنے خواب اور پریشان کن یادیں تحریر کرتی رہے۔

اگلے چند ماہ میں سوزن کی ڈائری کے اوراق پڑھنے سے پتہ چلا کہ سوزن جب بچی تھی تو اس کے والدین کی طلاق ہو گئی تھی۔ سوزن اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگی تھی لیکن اپنے والد کو یاد کر کے روتی رہتی تھی۔ سوزن کے والد اپنی بیوی سے اتنے ناراض تھے کہ وہ اپنی بیٹی کو بھی ملنے نہ آتے تھے۔ سوزن اپنے والد کو ملنے کا خواب دیکھتی رہتی لیکن وہ خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہ ہوا۔ جس دن سوزن کو یہ خبر ملی تھی کہ اس کے والد نے ایک اور شادی کر لی ہے اور اپنی دوسری بیوی کے بچوں سے دل لگا لیا ہے اس دن وہ رات کو سونے پہلے بہت روئی تھی۔

آخر ایک دن سوزن کو اپنے والد کا فون آیا اور انہوں نے سوزن کو کھانے کی دعوت دی۔ سوزن تیار ہو کر وہاں پہنچی اور کافی دیر تک انتظار کرتی رہی لیکن اس کے والد نہ آئے۔ سوزن مایوس ہو کر گھر لوٹ آئی۔ اس رات سوزن کو پہلی بار پینک اٹیک ہوا۔

میں نے سوزن کو بتایا کہ بعض مریضوں کے پینک اٹیک کا تعلق والدین سے جدائی اور separation anxiety سے ہوتا ہے۔ میں نے سوزن کو سمجھایا کہ ایک وہ زمانہ تھا جب وہ بچے جو صبح سکول جانے سے گھبراتے تھے اور انہیں یا پیٹ میں درد ہوتا تھا یا الٹیاں کرتے تھے ان کی تشخیص school phobia کی جاتی تھی لیکن پھر ماہرینِ نفسیات نے یہ جانا کہ ایسے بچوں کی مائیں بچوں سے اتنی زیادہ محبت کرتی تھیں کہ جب بچہ سکول جانے کی تیاری شروع کرتا تو ماؤں کو separation anxiety  شروع ہو جاتی اور بچہ ماں کو پریشان دیکھ کر خود پریشان ہو جاتا۔ ایسے ماہرین نفسیات بچے کے ساتھ ماں کا بھی علاج کرتے اور ماں کی مدد کرتے کہ وہ اپنی جذباتی آنول کاٹ دے تا کہ بچہ خوشی خوشی سکول جا سکے۔

سوزن کئی مہینوں کے علاج کے بعد یہ نفسیاتی راز سمجھی کہ اس کے پینک اٹیک کا تعلق اس کے اپنے والد کے تکلیف دہ رشتے کے ساتھ ہے۔ پچھلے سال فادرز ڈے پر میں نے سوزن کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے والد کو ایک خط لکھے اور وہ خط لکھ کر والد کو بھیجنے کی بجائے مجھے دے دے۔

میں آپ کی خدمت میں سوزن کے خط کے چند اقتباسات کر ترجمہ پیش کرتا ہوں

، ڈیر ڈیڈ! میں آپ کو اس لیے خط لکھ رہی ہوں کیونکہ نہ میں آپ کو فون کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی ملنا چاہتی ہوں۔ آپ نے ساری عمر مجھے اپنی محبت اور شفقت سے محروم رکھا۔ مجھے زندگی میں کئی دفعہ آپ کی معاونت کی ضرورت پڑی لیکن میں آنسو بہا کر سو گئی۔

جب سے آپ نے دوسری شادی کی ہے آپ دوسرے خاندان کے ہو گئے ہیں اور ہمیں بھلا دیا ہے۔ آپ کے سوتیلے بچے سگے ہو گئے ہیں اور سگے سوتیلے۔

آپ نے ایک دفعہ مجھے کھانے کی دعوت دی تھی۔ میں بڑے شوق سے آپ کو ملنے گئی تھی لیکن آپ وعدہ کر کے بھی نہیں آئے اور میں دو گھنٹے انتظار کر کے گھر لوٹ آئی۔ اس دن میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔

آج فادرز ڈے ہے اور میں آپ کو خدا حافظ کہنے آئی ہوں۔ یوں لگتا ہے میں اس رشتے کو خدا حافظ کہنے آئی ہوں جو جوان ہونے سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ ایسے رشتے کو خدا حافظ کہنے آئی ہوں جو شاید کبھی تھا ہی نہیں۔

آپ کی سگی ہوتے ہوئے بھی سوتیلی بیٹی۔ سوزن

اس خط کے بعد سوزن کے نفسیاتی مسئلے میں بہتری کے آثار شروع ہوئے۔ وہ ڈائری لکھتی رہی اور مجھے سناتی رہی۔

آج سوزن نے مجھے بتایا کہ وہ تھیریپی سے بہت خوش ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے پچھلے چھ ماہ میں کوئی پینک اٹیک نہیں ہوا۔ میں نے جب سوزن سے پوچھا کہ کیا میں ان کا خط ترجمہ کر کے اپنے کالم میں استعمال کر سکتا ہوں تو کہنے لگیں اگر اس سے اور لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے تو ضرور ترجمہ کریں اور اپنے کالم کا حصہ بنائیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail