پیپلز پارٹی کا ’جیالوں سے بھری سڑکیں نظر آنے‘ کا دعوی کتنا درست ثابت ہوا؟


پیپلز پارٹی احتجاج

کراچی میں ہونے والے احتجاج میں خواتین کی ایک بڑی تعداد دکھائی دی

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکنان نے منگل کے روز ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔

یہ مظاہرے دونوں جماعتوں کے دو اہم قائدین کو قومی احتساب بیورو نیب کی طرف سے محض دو روز کے دورانیے میں گرفتار کیے جانے کے ردِ عمل میں سامنے آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ ان کا احتجاج نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس میں شدت آئے گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے دوسرے چند شہروں میں سڑکوں پر آئے۔

منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار سابق صدر آصف علی زرداری کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف لیاری میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نے چاکیواڑہ سے لی مارکیٹ تک احتجاجی ریلی نکالی۔

اس کے علاوہ حسن سکوائر اور چند دیگر مقامات پر بھی احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ پشاور اور لاہور میں پیپلز پارٹی کے کارکنان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے پریس کلبوں کا رُخ کیا۔

مزید پڑھیے

آصف علی زرداری کو کن الزامات کا سامنا ہے؟

جعلی اکاونٹس کیس: زرداری کی درخواستیں مسترد

اب زرداری کا بچنا محال ہے؟

’مائی لارڈ رجسٹری نہیں کیش جمع کراؤں گا‘

پشاور میں منعقد ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے نیب اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی جبکہ نیب کے سربراہ کی تصویر کو نذرِ آتش بھی کیا گیا۔ صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے احتجاج کا مرکز لاہور رہا۔

احتجاج

چیئرمین نیب کی تصویر کو نذر آتش کیا گیا

پریس کلب کے باہر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان جمع ہوئے، روایتی نعرے بازی کی گئی اور گھنٹہ بھر تپتے سورج کے نیچے مجمع کرنے کے بعد جب وہ منتشر ہوئے تو سڑک پر ’نیب گردی بند کرو‘ جیسے نعرے درج پائے گئے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ ان مظاہروں کا مقصد کیا تھا؟ کیا پاکستان پیپلز پارٹی اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے؟ آصف زرداری کی گرفتاری کے بعد ایسا کرنے سے جماعت کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟

پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی کے مطابق وہ حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ غیر ضروری مسائل کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اصل مسائل سے توجہ ہٹائی جائے۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف نے عید کے بعد مہنگائی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔

’تو اس سے توجہ ہٹانے کے لیے انھوں (حکومت) نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ سیاسی لیڈروں اور کارکنان کو گرفتار کرو۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی

لاہور میں پیپلز پارٹی کے اراکین احتجاج کرتے ہوئے

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے یہ الزام پہلے بھی سامنے آتا رہا ہے کہ حکومت نیب کو استعمال کر کے انھیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے پنجاب میں پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی حکومتی تردید کو نہیں مانتے۔

ان کے مطابق ’نیب حکومت کی بی ٹیم ہے اور حکومت نیب کی بی ٹیم ہے۔ آپ دیکھیں ان کے تمام جو غیر منتخب ترجمان ہیں وہ سارا دن نیب ہی کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔‘

صوبہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی کی محض چھ نشستیں جیت پائی تھی۔

تو کیا ایسی صورت میں وہ پنجاب میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی منظم اور بڑی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

احتجاج

حسن مرتضٰی کا کہنا تھا ’آپ دیکھیں گے، انھی گرمیوں میں پنجاب کی سڑکیں آپ کو جیالوں سے بھری نظر آئیں گی۔‘ تاہم منگل کے روز ہونے والے احتجاج کو اگر آغاز سمجھا جائے تو وہ بڑا آغاز نہیں تھا۔

ہجوم کے خاطر خواہ بڑا نہ ہونے کی طرف حسن مرتضٰی کی توجہ مبذول کروائی گئی تو ان کا کہنا تھا ’یہ اچانک تھا اور بہت تھوڑے وقت میں (کیا گیا)، پھر بھی کافی تعداد میں کارکنان آئے اور اب تیاری ہوتی رہے گی، اور یہ تعداد آپ کو بڑھتی نظر آئے گی۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی کی پنجاب میں مقبولیت کھونے کے حوالے سے تاثر کے جواب میں لاہور سے جماعت کے رہنما فیصل میر کا کہنا تھا ’ایک منظم طریقے سے ہر انتخابات میں، دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا کچھ تاثر پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز کے اندر بھی ہے لیکن جب آصف علی زرداری صاحب کو گرفتار کیا گیا تو سب سے پہلے پاکستان میں لاہور کا ورکر سڑک پر آیا۔‘

فیصل میر کا ماننا ہے ’پاکستان پیپلز پارٹی درحقیقیت مزاحمت کی جماعت ہے مگر کیونکہ وہ مصالحتی سیاست میں رہی ہے اس کی وجہ سے ورکر بھی غیر فعال ہو گیا تھا لیکن اب ورکر دوبارہ اس پرانے طرز پر واپس آ جائے گا۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی علامت ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت میں رہی ہے۔‘

پیپلز پارٹی احتجاج

پشاور میں احتجاج کا ایک منظر

فیصل میر نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری اپنے خلاف کرپشن کے الزامات سے نکلنے کے لیے پی پی پی کو استعمال کر رہے تھے۔

’اگر آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کو استعمال کرنا ہوتا تو وہ پہلے کرتے، اب وہ گرفتار ہونے کے بعد کیوں کریں گے۔‘

تاہم اس حوالے سے تاحال سوالیہ نشان موجود ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں وہ تحریک چلا پائے گی جس کا وہ دعوٰی کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp