زرداری کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کیس کے ثبوت کتنے پکے ہیں؟


10 جُون 2019ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جعلی بینک اکاؤنٹس کے کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انھیں گرفتار کر لیا ہے۔

آیئے، اس کیس سے متعلقہ ذہن میں اُبھرنے والے چند اہم سوالات اور جوابات کا سادہ انداز میں جائزہ لیتے ہیں:

1. فیڈرل انویسٹگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے جس اکاؤنٹ میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی مشکوک منتقلی کی نشاندہی کی، کیا وہ آصف علی زرداری کا بنک اکاؤنٹ ہے؟ نہیں!

2. ڈیڑھ کروڑ روپے کی مشکوک منتقلی والے بنک اکاؤنٹ کو کھولنے میں آصف علی زرداری کی کسی قسم کی معاونت ثابت ہوئی؟ نہیں!

3. جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلقہ مقدمے میں آصف علی زرداری کے خلاف کیا اب تک کوئی ایف آئی آر درج کی گئی؟ نہیں!

4. ٹرائل کورٹ کی ابتدائی سماعتوں کے باوجود کیا ابھی تک آصف علی زرداری کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی ہے؟ نہیں!

5. میڈیا پر “میگا منی لانڈرنگ کیس” کے نام سے بھرپور انداز میں ڈھول پیٹا جا رہا ہے، لیکن کیا ابھی تک منی لانڈرنگ کی شکایت تک بھی فائل کی گئی ہے؟ نہیں!

6. سپریم کورٹ نے نیب کو دو ماہ کے اندر جعلی بینک اکاؤنٹس کے معاملے کی تحقیقات کر کے ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، یہ وقت گزر چکا ہے، سپریم کورٹ نے اس مقررہ وقت میں کوئی توسیع بھی نہیں کی۔ کیا اب تک نیب کوئی ریفرنس دائر کر چکا ہے؟ نہیں!

7. اکاؤنٹ کی ملکیت سے ہٹ کر پاکستان کے اندر ایک بنک اکاؤنٹ سے دوسرے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانزیکشن کو کیا منی لانڈرنگ کہا جا سکتا ہے؟ نہیں!

8. اِس کیس سے متعلقہ جعلی بینک اکاؤنٹس کی تمام ٹرانزیکشنز سندھ میں ہوئیں۔ دنیا بھر کے قانون کے مطابق جہاں جرم کے ارتکاب کا الزام لگے، اسی جگہ ٹرائل ہوتا ہے۔ کیا اس کیس کا ٹرائل سندھ میں ہی ہوا؟ نہیں!

9. جعلی بینک اکاؤنٹس کی ٹرانزیکشنز سندھ میں ہونے کے باوجود کیس راولپنڈی میں منتقل کر دیا گیا، کیا باقی صوبوں میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے کیسز کے لیے بھی آصف علی زرداری کے خلاف کیس کا طریقہ اپنایا گیا؟ نہیں!

10. آصف علی زرداری کی گرفتاری سے قبل وزراء اُن کی گرفتاری کی تمام تفصیلات بتا رہے تھے، اٗن وزراء کی پیش گوئیوں کے عین مطابق اب ضمانت مسترد کرنے والی عدالت غیر جانبدار ہے یا پھر عدالت کا یہ اپنا لکھا ہوا فیصلہ ہو سکتا ہے؟ نہیں!

11. کیا آصف علی زرداری نے اِس کیس کی تفتیش میں تعاون سے انکار کیا؟ نہیں!

12. آصف علی زرداری سے ہر پیشی پر جو سوالات پوچھے گئے، کیا اُنھوں نے جوابات دینے سے انکار کیا؟ نہیں!

13. اِس کیس سے متعلقہ جو ریکارڈ آصف علی زرداری سے مانگا گیا، کیا اُنھوں نے دینے سے انکار کیا؟ نہیں!

14. ماضی کے ریکارٖڈ کو مدںظر رکھتے ہوئے کیا آصف علی زرداری کے فرار ہونے کا کسی قسم کا خدشہ تھا؟ نہیں!

15. جب آصف علی زرداری مقدمے کی تحقیقات کے لیے ہر قسم کا تعاون کر رہے تھے، تو پھر اُنھیں گرفتار کرنے کی کوئی قانونی و اخلاقی وجہ بنتی ہے؟ نہیں!

مندرجہ بالا حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی باشعور انسان باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ غیر جانبدار احتساب ہے یا پھر یکطرفہ سیاسی انتقام۔

یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے مقدمے کے حوالے سے نواز شریف کے آخری دورِ حکومت کے دوران 2015ء سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف تحقیقات جاری ہیں (اِس سے صاف ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پچھلے پانچ سال سے اِس جعلی کیس کے ذریعے آصف علی زرداری کے خلاف بر سرِ پیکار ہے اور ثبوت ڈھونڈنے کی تگ و دو میں مصروف ہے)۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دسمبر 2018ء میں اپنی جے آئی ٹی رپورٹ لاہور رجسٹری میں عدالت کے روبرو جمع کروائی۔ اس جے آئی ٹی کے سربراہ بشیر احمد میمن (ڈی جی ایف آئی اے) تھے، جن کی آصف علی زرداری سے پرانی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے (بشیر میمن کا سگا بھائی بھی سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالف جماعت مسلم لیگ پگارا کا انتخابی امیدوار رہا ہے)۔ مجموعی طور پر یہ جے آئی ٹی رپورٹ 27 جلدوں پر مشتمل ہے (اس کے علاوہ 135 صفحات کی ایگزیکٹو سمری کے ساتھ 95 بڑے ضمیمے بھی منسلک ہیں)۔ اِس رپورٹ میں دُور کی کوڑیوں کی بھرمار میں سے مندرجہ ذیل بڑے “ثبوت” پیش کیے گئے، جن کے لیے جعلی بینک اکاؤنٹس سے ادائگیاں کی گئی تھیں:

1. دھوبی کا بل۔

2. پانی و بجلی کا بل۔

3. لنچ کا پندرہ ہزار روپے کا بل۔

4. صدقوں کے بکروں کے لیے پیسے دیئے گئے۔

5. اربوں روپوں کی زمینوں کا انکشاف بھی ہے مگر ان میں سے کوئی ایک زمین بھی آصف علی زرداری کے نام نہیں ہے بلکہ کچھ افراد کے نام ہے، جنہیں ثبوتوں کے بغیر آصف زرداری کا فرنٹ مین قرار دیا گیا ہے۔

6. کسی بینک اکاؤنٹ سے آصف علی زرداری کا براہ راست کوئی تعلق ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ آصف علی زرداری نے مذکوہ اکاؤنٹس کھلوائے اور نہ ہی ان کو آپریٹ کیا مگر جے آئی ٹی رپورٹ تیار کرنے والوں نے بغیر کسی ثبوت کے لکھ دیا کہ یہ جعلی اکاؤنٹس بھی آصف علی زرداری کے ہیں۔ یہ رپورٹ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے تمام جعلی اکاؤنٹس آصف علی زرداری کے کھاتے میں کیوں نہیں ڈالے گئے۔ یہ پوری رپورٹ قیاس آرائیوں پر مشتمل ہے، جس میں ثبوتوں یا شہادتوں سے مکمل پرہیز کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ جے آئی ٹی میں دی گئی کوئی بھی رائے عدالت میں شہادت یا ثبوت کے طور پر قبول نہیں کی جا سکتی۔ ثبوت وہی مانا جاتا ہے، جو تحقیقاتی ادارے اکٹھا کرتے ہیں، جس کے ذریعے کسی کو ملزم قرار دیا جا سکے۔ فقط قیاس آرائیوں پر کسی کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سزا دی جا سکتی ہے۔

11 جُون 2019ء کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آصف علی زرداری کو دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آصف علی زرداری کے علاوہ ان کی بہن فریال تالپور کی بھی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کر دی تھی لیکن نیب نے تاحال ان کی گرفتاری کی کوشش نہیں کی۔

ماضی گواہ ہے کہ جب سے آصف علی زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی زندگی میں آئے ہیں، اِن پر مقتدرین کی کرم نوازی جاری ہے۔ گو کہ آصف علی زرداری کے خلاف 1990ء سے لے کر آج تک بننے والے تمام کے تمام مقدمات جھوٹے ثابت ہونے کے باوجود آج بھی اِن کے خلاف میڈیا پر بڑی دلچسپ الف لیلوی داستانیں پورے اعتماد کے ساتھ سنائی جاتی ہیں۔ حالانکہ اب یہ پوری طرح واضح ہو چکا ہے کہ اِس پورے عمل کی ہدایتکار وہی مقتدر قوتیں ہیں، جو ووٹ، آئین اور جمہوریت کی حُرمت کو تار تار کرنے کی درپے ہیں۔

آصف علی زرداری کے خلاف مقتدرین کی مخالفت کی ٹھوس وجوہات ہیں کیونکہ یہ طاقتیں حقیقت جان چکی ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پورے پاکستان میں اُن کی راہ میں آصف علی زرداری نامی فقط ایک کانٹا رہ گیا ہے۔ یہ اُن کی مَن مانیوں کی راہ کھوٹی کرتا ہے۔ “تقدس” کو پامال کرتا ہے۔ حکومت میں ہوتے ہوئے آئی ایس آئی کو سِول حکومت کے ماتحت کرنے کے نوٹیفیکیشن جاری کرواتا ہے، فارن پالیسی کے ذریعے کیری لوگر بِل پاس کرواتا ہے، سیکریٹ ایجنسیوں کے بجٹوں کے آڈٹ کروانے کی قانون سازی کروانے کے “ناقابل معافی جرم” کا مرتکب ہوتا ہے، پاکستان کے کور ایشوز کو ایڈریس کرتا ہے، قانون سازی کرتے ہوئے اپنے اختیارات تک قربان کر دیتا ہے، ملکی خزانے پر لامتناہی ڈاکہ زنی کی بندش کے لیے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کرتا ہے اور ملکی مفادات پر خطرناک حد تک اپنی سیاسی پارٹی کے مفادات تک کو حائل نہیں ہونے دیتا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2