بجٹ وجٹ چھوڑو، قوت خرید دیکھو


میرے پیارے دوستوں میں سے ایک جو نہ صرف عمر میں دو چار سال ”بزرگ تر“ ہیں بلکہ حکومت پاکستان سے تمغہ حسن کارکردگی بھی پا چکے ہیں، سیاستدانوں کی مانند گذشتہ ایک دو برس سے اپنی ہمدردیاں پی پی پی سے تبدیل کرکے تحریک انصاف کے حامی ہو رہے ہیں۔ بحث میں جھگڑتے نہیں بلکہ دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بات پر ڈٹے ہمیں غلط ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ رجائیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں جو ہمارے دوسرے فرانس نژاد ادیب دوست کے مطابق جھوٹی اور لغو کیفیت کا نام ہے۔

رات جب میں نے کہا کہ ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں تو بولے میں تو معاشی حالات کو تب برا تسلیم کروں اگر دکانوں پر گاہکوں کا ہجوم کم ہو، ریستوران خالی دکھائی دیں۔ عید کی رات خریداری کا عالم دیکھتے، کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ابھی باہر جا کے دیکھو لوگ تربوز اور آم اسی طرح خرید رہے ہیں جیسے خریدا کرتے تھے گویا لوگوں میں قوت خرید اگر برقرار نہیں بھی رہی تو کم بھی نہیں ہوئی۔ میرے در پر گذشتہ بیس برسوں سے وہی فقیر صدا لگاتے ہیں جو تب سے تھے، نئے لوگ تو فقیر بنے نہیں۔

میں کیا کہتا مجھے ویسے ہی لگا جیسے ربع صدی پہلے ماسکو میں ایک اور دوست نے فتوی دے دیا تھا کہ ماسکو بلکہ روس کی ہر لڑکی بیسوا ہے۔ فتوی تو فتوی ہے پھر بھی میں نے پوچھا بھائی آپ کے خیال مطابق ماسکو میں کتنے نائٹ کلب ہوں گے۔ بولے پچاس کے قریب ہوں گے، میں نے کہا ایک سو لگا لو۔ پھر پوچھا کہ آپ کے خیال مطابق ہر کلب میں ہر رات کتنی لڑکیاں آتی ہوں گی۔ طمطراق سے گویا ہوئے لگ بھگ ایک سو تو ہر کلب میں ہوتی ہوں گی۔

عرض کی دو سو لگا لیتے ہیں۔ یہ بھی تصور کر لیتے ہیں کہ ساری کی ساری اخلاق باختہ ہوں گی۔ تو بھائی لڑکیوں کی تعداد بیس ہزار ہے۔ سوچیے ماسکو کی آبادی کروڑ سوا کروڑ کے نزدیک ہے۔ چلیے ہم احتیاطاً نوے لا کھ لگاتے ہیں۔ شماریات کے مطابق روس میں عورتیں مردوں کی نسبت دس فیصد زیادہ ہیں، ہم ففٹی ففٹی ہی رکھتے ہیں۔ یوں ماسکو میں عورتیں پینتالیس لاکھ ہوئیں۔ 25 سال سے زیادہ اور 16 سال سے کم کو ہم برابر خیال کرکے، تیس لاکھ منہا کر دیتے ہیں یوں ماسکو میں جوان لڑکیوں کی تعداد پندرہ لاکھ بنتی ہے تو دوست عزیز بیس ہزار کو پندرہ لاکھ پر تو محمول مت کرو جو کل تعداد کا 2 % بنتا ہے مگر وہ اپنے کہے سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔

شہر کی آبادی دیکھیں۔ شہر میں دکانوں ریستورانوں کی تعداد دیکھیں، گاہکوں اور مشتریان کی تعداد آنکیں اور پھر طے کریں۔ جس طرح روس کے چھوٹے شہروں، قصبوں اور بستیوں میں نائٹ کلب نہیں تھے جہاں جانے والی بچیوں کو ہم نے استغفراللہ اخلاق باختہ تصور کر لیا تھا، حساب لگانے کی خاطر اسی طرح پاکستان کے چھوٹے شہروں، قصبوں اور بستیوں میں نہ صرف دکانیں اور ریستوران کم ہیں بلکہ لوگوں کی آمدنیاں بھی کم ہیں۔ قوت خرید کا اندازہ لگانے کی خاطر مجموعی آبادی اور مجموعی فروخت سے لگانا ہوگا۔

مگر ہمارے دوست تو خیر سے رجائیت پسند ٹھہرے۔ بولے ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ اگر تمہارے مطابق حالات خراب ہیں اور لوگوں کی آمدنیوں اور اخراجات میں عدم توازن بڑھ رہا ہے تو لوگ سڑکوں پر نکلیں گے۔ اگر چند ماہ میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو میں تمہارا کہا مان لوں گا اور اگر نہ نکلے تو تم میرا کہا تسلیم کر لینا کہ پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں نہیں بلکہ بہتر ہونے کی جانب جا رہے ہیں۔

عرض کی بھائی لوگ اپنے طور پر تو باہر نہیں نکلا کرتے۔ بولے کیوں نہیں نکلتے، میرے حالات خراب ہوئے میں تو نکل کھڑا ہوں گا۔ بھائی تم تن تنہا ہوگے نا۔ ہیں رجائیت پسند اس لیے گویا ہوئے کہ ایک ایک ہی سے اجتماع بنتا ہے کیا انقلاب فرانس کے لیے لوگ نہیں نکلے تھے؟ عرض کی جناب تب حالات بالکل اور تھے اور مقام فرانس تھا۔ آج کسی مقبول سیاسی پارٹی اور خاص طور پر قابل اعتماد سیاسی رہنما کے بغیر لوگ سڑکوں پر نکلنے سے رہے۔ سیاست کا تو آپ کے نئے سیاست دان نے ناس مار دیا۔ کسر نیب نے پوری کر دی۔ اب لوگوں کو کون نکالے گا۔ کمتر درجے کے رہنما تو نکالنے سے رہے۔

اتنے میں سامنے رکھے ٹی وی کے پہلے ایک چینل پہ پھر دوسرے چینل پر وفاقی وزیر فیصل واوڈا کہتے ہوئے ملے کہ پانچ ہزار بدعنوان لوگوں کو لٹکا دیں تو ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ حامد میر نے تحیر سے پوچھا کیسے لٹکا دیں؟ وزیر موصوف بولے آئین و قانون کے مطابق لٹکا دیں۔ اس کہے پر ہنسنا بنتا تھا لیکن میں نے بددل اور بدزن ہو کے لاحول پڑھی۔ دوست کی توجہ اس نامعقول بیان کی طرف دلائی تو کہنے لگے عمران خان کو ان کے وزراء کے بیان ہی بدنام کرتے ہیں یعنی عمران خان خود فرشتہ ہیں جو وزیراعظم بننے سے پہلے اپنے ہاتھ سے لوگوں کے گلے پھندے میں ڈالنے کے دعویدار تھے۔ اس پر بھی میرے رجائیت پسند دوست کا موقف تھا کہ انتخاب جیتنے کی خاطر تو جذباتی دعوے کیے جاتے ہیں۔ اب کیا کہتا کہ جس جیت کی بنیاد جھوٹے اور جذباتی نعروں پر استوار ہو اس جیت کے مقاصد بھی مبہم اور بیکار ہوں گے۔

سمجھانے کی سعی کی کہ دنیا میں کوئی بھی ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بغیر نہیں چلا کرتا مگر ہر ملک قرض لیتے ہوئے اپنے وسائل، اپنے بجٹ اور اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ قرض بھیک سمجھ کر کے نہیں لیتا کہ نہ بھی لوٹائیں گے تو کون سی آفت آ جائے گی۔ مگر اس بار جس طرح کے قرض لیے گئے ہیں جن میں سعودی عرب کی پارکنگ منی اور چھتیس قسطوں میں لیے جانے والے آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر ہیں، سے واضح ہوتا ہے کہ معاشی طور پر ٹامک ٹوئیاں ماری جا رہی ہیں۔ اکبرزیدی اور قیصر بنگالی جیسے ماہرین معیشت نہ صرف اعتراض کر رہے ہیں بلکہ برے حالات کی معاشی پیش گوئیاں بھی کر رہے ہیں۔ مگر ہمارے رجائیت پسند دوست کا کہنا تھا کہ یہ سب منفی پراپیگنڈہ ہے ویسے سب اچھا ہے۔

یہ سب اچھا ہونے کی بات بھی ٹھیک رہی۔ پرسوں میرے ہاتھ میں تیرہ سو ڈالر تھے۔ میں نے اپنی معمر اور سادہ بہن کو وہ دکھا کر کہا کہ دیکھو چند سال پہلے یہ 78000 روپے تھے مگر آج یہ تقریباً 200000 روپے ہیں۔ بہن کی باچھیں کھل اٹھیں کہ بھائی کے پیسے زیادہ ہو گئے۔ میں نے دکھی قیافے کے ساتھ کہا مگر یہ غربت ہے۔ بولی وہ کیسے؟ میں نے بتایا کہ جو چیز تب تم 78000 روپے میں خرید سکتی تھیں آج وہ 200000 میں خرید سکو گی مگر تمہارے پاس تو آج بھی 78000 نہ سہی لاکھ سوا لاکھ ہے یعنی تم وہ چیز خرید ہی نہیں پاوگی۔ سبھوں کے پاس ڈالر نہیں ہوتے بلکہ 99.99 فیصد کے پاس نہیں ہوتے۔ اشیاء کی قیمتیں زرمبادلہ کی شرح کے مطابق بڑھتی گرتی ہیں مگر آج ڈالر ڈیڑھ سو سے زیادہ ہے۔

مگر اس پہ کیا کہیے کہ ہمارے رجائیت پسند دوست کے مطابق آج بھی سب اچھا ہے۔ بجٹ وجٹ کو چھوڑیں قوت خرید برقرار ہے، وہ بضد رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).