خواب۔ شرمندہِ تعبیر، یا صرف شرمندہ؟


باوجود اس امر کے کہ کل رات بار بار وقتِ نشریات کو بدلہ گیا، میں ان لاکھوں میں شمار کیا جاؤں گا جنہوں نے خلوصِ دل و نیت کے ساتھ بے چینی سے وزیراعظم کا قوم سے خطاب کا انتظار کیا۔ اور کیوں نہیں، ہم سب کا ماضی، حال اور مستقبل اسی ملک سے وابستہ ہے۔ پھر یہ کہ سب جانتے ہیں ملک سنگین مسائل سے دوچار ہے اور سیاسی منظرنامہ بھی کچھ اس قدر تیزی سے بدلا۔ سوچا ضرور وہ آکر کوئی ’نئی بات‘ کریں گے۔ اہم بات ہوگی جس کی اتنی رات گئے بھی اشد ضرورت ہے۔

جب نشریات کا وقت دو سے تین بار بدلہ گیا تومجھے یقین ہو چلا کے ضروری نکات کو حتمی شکل دی جا رہی ہوگی، الفاظ کا چناؤ، مضمون کی ترتیب وغیرہ۔ وقت تو لگ ہی جاتا ہے۔ نیز یہ کے تجربے کی بنیاد پر سمجھا کے اِسے براہ راست ہی دکھایا جائے گا۔ (وقت کے مسلسل ردوبدل کے باعث یقین ہو چلا تھا کے ریکارڈنگ نہیں ہو سکتی) ۔

سو۔ ان کی باتیں تو سب نے سنیں مگر جو میں نے دیکھا، اور محسوس کیا، آپ کے حوالے کرتا ہوں۔

یقین جانیے سیاست سے قطعی طور پر بالا تر ہوتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں مجبور ہوا ہوں کہ گزشتہ رات نشر ہونے والے ’قوم سے خطاب‘ پر اپنی برہمی اور رائے کا برملا اظہار کروں۔ ایک ناقد کی حثیت سے نہیں بلکے ایک ادنیٰ پاکستانی ہونے کے ناتے جو اگر مہارت نہ بھی سہی تب بھی کم از کم ریکارڈنگ کے تکنیکی معاملات اور پروڈکشن کے زاویوں پر عبور رکھتا ہے۔ نہایت ادب اور احترام کے ساتھ وضاحت کرتا چلوں کہ مجھے ذاتی طور پر خان صاحب سے کوئی عداوت ہے اور نہ ہی میں کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہوں۔ بلکے اس کے برعکس کل ان کے ساتھ خود ان کے لوگوں نے جو سلوک کیا مجھے اس کا شدید رنج ہے۔ صرف ان کے منصب کے وقار کے لئے نہیں، بلکے ان کے ساتھ جڑا مگر ان سے کہیں زیادہ بلند اور اہم۔ ہمارا ملک پاکستان۔ جس کی ساکھ متاثر ہوئی۔

یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کے میڈیا کے حوالے سے خود ان کے اور اس حوالے سے آج ہمارے ملک کے معاملات کیسے احمق لوگوں کے حوالے ہیں۔ سمجھنے سے قاصر ہوں کے میریٹ کی بات کرنے والے کیا ہوئے؟ اتنی معمولی مہارت رکھنے والے لوگوں کا اتنا بڑا فقدان یک دم کیسے ممکن ہے؟

بحثیتِ پاکستانی مجھ پر لازم ہے کے میں اس عہدے کا احترم کروں اور اپنی رائے قائم کرتے وقت تہذیب، زبان اور آداب کو مد ِنظر رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کروں، خاص کر ایک ایسے دور میں اور پلیٹ فارم پر جہاں ہماری زبان اور رویہ دونوں، انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ رہا سوال برداشت کا تو اس عمل سے بہت دور ہے۔ اب ہم ایک دوسرے کو پاکستانی نہیں، ’یوتھیا‘ ، ’جیالا‘ اور ’پٹواری‘ جیسے القابات سے جانتے اور گردانتے ہیں۔ اور بعض اوقات تو معاملہ غدار اور محبِ وطن کی سند تک بھی چلا جاتا ہے۔

میرے نزدیک اور یقیناً آپ کے بھی، ’وزیر ِاعظم پاکستان‘ فرد نہیں بلکے ایک قابل ِعزت اور پروقار منصب کا نام ہے جو کہ بائیس کروڑ عوام، خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی نظریہ سے کیوں نہ ہو، چاہے ان کا ووٹ مخالفت میں ہی کیوں نہ ڈالا ہو، بہرحال ان کی نمائندگی اور عکاسی کرتا ہے۔

وزیرِ ِاعظم کی ذات، یا یہ کہ وہ کون سی شخصیت ہے، حکومت کی کارکردگی کیسی ہے یا ان کے ذاتی مشاغل کیا کیا ہیں، طرزِ حکومت اچھا ہے یا برا۔ یہ لاحاصل بحث سیاستدانوں کو ہی زیب دیتی ہے۔

میرا المیہ کچھ اور ہے۔ یعنی اکیسویں صدی، سن 2019 ء میں اگر کوئی یا چند لوگ، ’تبدیلی‘ اور ’نئے پاکستان‘ کے بانی کے ریکارڈ شدہ خطاب ’حشر نشر‘ کر کے نشر کریں جو اپنے ہی لوگ ہوں، تو باقی کس سے گلہ کریں؟

جب بیانیہ ’امید‘ اور ’تبدیلی‘ جیسے بلندوبالا وعدوں پر قائم ہو تو لامحالہ توقعات بھی گھر کر لیتی ہیں۔ اول تو یہ کہ بلاشبہ ’قوم سے خطاب‘ اور ’سیاسی تقریر‘ میں واضح فرق ہوتا ہے جس کی سمجھ وہ پیشہ ور افراد جو ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں بخوبی جانتے ہیں پر کل رات اس سمجھ کی کمی مجھے شدت سے محسوس ہوئی۔ افسوس ہوا کے اتنے اہم عہدے پر فائز انسان، صحابہِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر کرتے ہوئے، الفاظ کے چناؤ میں ناکام رہے جس کے باعث لوگوں کے جذبات کو ٹھیس لگی اور کوئی تعجب نہیں اگر دینی ادارے یا کوئی جماعت ان سے اس گستاخی پر معافی طلب کریں۔ یا شاید مطالبہ کر بھی دیا ہو۔

دوئم یہ کہ ماضی قریب میں کئی بار ہمارے منتخب وزیرِ اعظم صاحب نے اپنا ’پیغام‘ ریکارڈ کرایا ہے جو درستگی سے چلا۔ مگر یہ ’پیغام‘ نہیں۔ قوم سے باقاعدہ ’خطاب‘ تھا، وہ جس سے پہلے قومی ترانہ چلے۔ تو آخر کل رات والا ماجرا کیا ہوا؟

میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کے ایسے نا اہل افراد بھی ہیں جو اِس ایک آسان سے کام پر مامور کے گئے اور وہ یہ چھوٹا سا کام بھی خوش اسلوبی نہ کر پائے! سیاست کو گولی ماریں۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم کا خطاب ہو اور پیچھے دیوار پر لگی بانیِ پاکستان، قائد ِاعظم کی تصویر کٹی ہوئی؟ سر تو سر، دھڑ بھی کٹا ہوا ہو؟ یہ افسوسناک بات ہے۔

سوئم یہ کے، اتنا وقت لگانے کے بعد بھی ایڈٹ کی کمی رہی جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایڈٹ کے بجائے آواز ہی بند کر دی گئی؟ تصویر آتی رہی اور آواز غائب؟ یعنی آپ کی قابل ٹیم بضد ہے کے آپ کا تاثر ملک کے اندر اور باہر یہ جائے کہ پاکستان کا سربراہ ریکارڈ شدہ خطاب بھی ’کسی‘ اور کے اشارے کے بغیر نہیں کر سکتا؟ اور شاید ایسا ہے بھی نہیں۔ پھر ایسا تاثر قائم کرنے پر کون بضد ہے؟ یہ اس منصب کے ساتھ زیادتی ہے اور اس غفلت کے ذمے داران، ان لوگوں کو سزا دی جانی چاہیے!

کسی کمپنی، ادارے یا فرد کو یہ حق حاصل نہیں کے ان کی غلطی کی وجہ سے ریاستِ پاکستان کا یوں بہیمانہ مذاق اڑایا جائے۔ کی گئی بات پیچھے رہ جائے اور یہ نئے تنازعے کھڑے ہوں؟بہت سارے دیگر احتساب کی طرح، لازم ہے کہ ایسی غفلت کا بھی کڑا احتساب ہونا ضروری ہے۔
جناب صاحب، ایک احتساب اور سہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).