یوگیوں اور صوفیاء کا بجٹ


یوگیوں اور صوفیاء کے ہاں عمومی اجماع ہے کہ روحانیت کی معراج پہ پہنچنے کے لئے دنیاوی لذات و سہولتوں کو اگر یکسر چھوڑنا نہیں تو کم ترین سطح پر تو ضرور رکھنا پڑتا ہے۔ جس کے لئے جنگلوں اور غاروں کا رخ کیا جاتا ہے۔ صوفیاء کو رہبانیت کی اجازت نہیں ہوتی تو اس لیے وہ اعتکاف پہ اکتفا کرتے ہیں اور ساتھ میں روزہ ہوتا ہے اور شدید قسم کا مجاہدین ہوتا ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم کھایا اور پیا جائے تاکہ روحا نی ترقی ہو۔

کپڑے بھی بہت ہی سادہ زیب تن کیے جاتے ہیں۔ حتی کہ گدڑی پہ گذارا ہوتا ہے اور اسے شاہی پوشاک سے اعلی و برتر سمجھا جاتا ہے۔ صبر و شکر ان کا وغیرہ ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں مادری ترقی کا پہیہ اس تیزی سے گھوم رہا ہے کہ اس چکر میں روحانیت کہیں کھو سی گئی ہے۔ آج کے انسان کا ایک بہت بڑا المیہ روحانی خالی پن ہے۔ صرف تصور کریں کہ کیا روحانی ترقی ہوگی اور کیا روحا نی وارداتیں ہوں گی اگر پورا ماحول ہی سازگار بنا دیا جائے اور عام ضرورت کی اشیاء پہنچ میں ہی نہ ہوں۔

وطن عزیز کی موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں بالخصوص 2019۔ 2020 کا مالی بجٹ دیکھ کے مجھے تو یقین واثق ہو چلا ہے کہ یہ صاحبان پورے ملک کو یوگیوں اور صوفیاء کی ڈگر پہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کو تزکیہ نفس کراتے ہوئے خوب جھکایا جا رہا ہے۔ اس کی ’میں‘ کو عجز کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ہماری مارکیٹ پٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں سے براہ راست متاثر ہوتی ہے اس لئے ان کی قیمت بڑھا کے ہمیں سادگی پہ مائل کیا جا رہا ہے۔

کھانے پینے کی تمام اشیاء مثلا دودھ، دہی، گھی، چینی، گوشت اور دالوں کی قیمتیں کچھ اس انداز سے بڑھائی گئی ہیں اور مزید بڑھائی جا رہی ہیں کہ کم کھانا اور پینا لازمی ہو چکا ہے لہذا زیادہ سے زیادہ روزہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی حکومت کی پالیسی کا حصہ لگتا ہے کہ اگر کوئی اس مہنگائی کے طوفان کے خلاف آواز اٹھائے تو اس کو اتنی گالیاں دی جائیں اتنی لعن طعن کی جائے کہ وہ گلوں شکووں سے تائب ہو کے سر جھکا دے۔ ان تمام مشکلات اور مجاہدوں کا مقصد یوگیوں اور صوفیاء کی طرح تزکیہ نفس ہے۔ اس تزکیہ نفس کی مشق کے بعد امید ہے کہ قومی سطح پہ صبر و شکر اور قناعت کی ریل پیل ہوگی۔ اور ہر چیز کو مثبت نظر سے دیکھا اور بیان کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).