فواد چوہدری، ہمارے لاپتہ چاند کی تلاش میں مدد فرمائیں


چوہدری صاحب ! جب آپ وزیر اطلاعات تھے تو لوگوں کو سنجیدہ قسم کے لطیفے سنایا کرتے تھے۔ اور جب آپ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنے، تو لوگوں نے بھی آپ کو اُتنے ہی سنجیدہ لطیفے سنانا شروع کردیئے۔ دوسروں کے لئے یہ کتنا ہی غیر سنجیدہ عمل کیوں نہ ہو، لیکن میرے لئے یہ دو طرفہ غیر سنجیدہ رویہ انتہائی اطمینان کا باعث رہا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ اس مضحکہ خیزی کے بطن سے یقینا کوئی نہ کوئی سنجیدگی ضرور جنم لے گی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ آج کی ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والی اقوام کبھی اتنی غیر مہذب اور غیر سنجیدہ ہوا کرتی تھیں۔وہ علم، دانش، حکمت اور منطق کی گفتگو کو زور دار قہقہوں یا پھر ہلڑ بازی کے شور میں اڑادیا کرتی تھیں۔ اُن کے یہاں مفکروں، ادیبوں،دانشوروں، شاعروں اور سائنسدانوں کو جوتے پڑتے تھے۔ جنگجوﺅں کو ہار پہنائے جاتے تھے۔ اور مذہبی پیشواﺅں پہ نذرانے نچھاور کیا کرتے تھے۔ اُن کی ذلت، پسماندگی اور جہالت کی سب سے بڑی نشانی یہی تھی کہ وہ اپنے قومی المیے پہ قہقہے لگاتے۔ حقائق سے نظریں چراکر بے پرکی اڑایا کرتے تھے۔ اور مباحثوں میں ایک دوسرے کے گریبان پکڑتے۔ اُن کے یہاں ظاہر ی طاقت کو فراست پہ فوقیت تھی۔ جس دن انہوں نے علم، عقل، منطق، فراست اور سائنس کو فوقیت دی۔ اُسی دن سے انہوں نے عروج کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔

ہم بھی کم و بیش ایک ایسے ہی دور سے گزر رہے ہیں۔ ویسا ہی دور جب ترقی یافتہ قوموں کی گلیوں میں جنگجو گھوڑوں کی ٹاپیں، کلیساﺅں کی گھنٹیاں،افواہوں کا شور، دانش گاہوں سے گھسیٹ کر لانے والوں کی چیخ و پکار اور تجربہ گاہوں پہ سنگ باری کی آوازیں سنائی دیا کرتی تھیں۔

تاریخ کے لحاظ سے اگر ناپی جائے، تو وطن عزیز کی عمر تو ابھی نوزائیدگی کے مراحل سے ہی گزر رہی ہے۔ نادانیوں اور لاپرواہیوں والی طفلانہ عمر۔۔۔ لیکن نظریاتی طور پر ہم خود کو نا صرف امت مسلمہ کا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ اُس سے آگے بڑھ کر اسلام کا قلعہ ہونے کے داعی بھی ہیں۔ اس لحاظ سے ہم اپنی تاریخی عمر کے سنجیدہ مرحلے پر کھڑے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس سنجیدہ مقام پراُسی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ جس میں کبھی وہ قومیں مبتلا تھیں، جنہیں ہم کفار کہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم بھی اپنے فہم و فراست اور عقل و سائنس کی گفتگو کرنے والوں سے ویسا ہی سلوک کر رہے ہیں، جو ڈارک ایجز میں کفار اپنے لوگوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ اس قلعے میں شاید اُن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کے آباﺅ اجداد الہندی سے لے کر ابن رشد تک اور الخوارزمی سے لے کر بو علی سینا تک اپنے دانشوروں اور سائنس دانوں کو اُن ہی کی کتب اور آلات سے مار مار کر لہولہان کرتے رہے ہیں۔ دھتکار، پھٹکار اور چپیڑیں کھانے والے ان دانشوروں میں وہ لوگ بھی شامل رہے ہیں، جن کے قمری کیلنڈروں کی تقلید میں آپ نے اپنے قمری کیلنڈر کا اجرا کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔

اس لمبی تمہید کا مقصد آپ کو سادہ لفظوں میں یہ کہنا تھاکہ ”آفرین ہو، آپ نے ہمارے اس ڈارک ایجز والے حالات میں ایک چھوٹی سی شمع روشن کی ہے۔ میرا اشارہ رویت ہلال کی جانب ہے۔ لوگ اس پر بھلے کتنے ہی لطیفے بنائیں۔ کتنے ہی اعتراضات اٹھائیں۔ مگر میرے لئے یہ امید کا دیّا ہے۔ ترقی کی جانب پیش رفت کا ایک بہت چھوٹا قدم ہی سہی۔ مگر قدم تو ہے نا“۔

چوہدری صاحب ! آپ یقین کریں کہ میرے گاﺅں میں بھی اس بار لوگوں نے نہ تو کسی پوپلزئی کے فتوے پہ کان دھرے۔ اور نہ ہی مفتی منیب صاحب کے اعلان کا انتظار کیا۔ انہوں نے آپ کی سائنسی رویت پر اعتبار کرکے عید منائی۔ اور آئندہ کی عید الاضحی کے لئے آپ ہی کی دی ہوئی تاریخ کو اپنے گھر وں کی دیوار وں پہ لکھ دیا۔ لیکن چوہدری صاحب، میرے گاﺅں میں کچھ گھرانے ایسے بھی تھے، جنہوں نے نہ تو پوپلزئی، نہ مفتی منیب الرحمان اور نہ ہی آپ کی دی ہوئی تاریخ پہ عید منائی۔

ان لوگوں کو عید منانے کے لئے اپنے اپنے چاند کا انتظار تھا۔ جو اس بار بھی اُنہیں نظر نہیں آیا۔ کہیں بوڑھے ماں باپ اپنے بیٹے کے لوٹ آنے کی دعا کرتے رہے۔ کہیں کوئی عورت اپنے بچوں کے ساتھ اپنے شوہر کی راہ تکتی رہی۔ اور کہیں کسی بہن کی آنکھیں اپنے بھائی کے انتظار میں پتھراگئیں۔ ان میں سے کئی گھرانے ہیں جن کے پیارے پچھلی کئی عیدوں سے اُن کے پاس نہیں آئے۔ اس بار بھی ان لوگوں نے سر اٹھاکر آسمان کی طرف نہیں دیکھا۔ بلکہ دور شہر سے آتی ہوئی گاﺅں کی کچی پکی سڑک پر اپنے اپنے چاند کی رویت کے لئے نظریں جمائے بیٹھے رہے۔ لیکن وہ سر نہیں آئے،جنہوں نے بہنوں کے ہاتھوں کی بنی ہوئی کلابتو کی زری ٹوپیاں پہننی تھیں۔ اور نہ ہی وہ جوان لوٹے، جن کے لئے ہاتھوں نے حنا کی چادر پہننا تھی۔ اور نہ ہی وہ بیٹے لوٹے، جن کے لئے ماﺅں نے اس بار بھی ساری رات جاگ کر قیمے والی مشین سے میدے کی سویاں نکالی تھیں۔

اور پھر اگلی صبح وہ لوگوں سے عید ملنے کی بجائے سڑکوں پہ نکل کے چلچلاتی دھوپ میں اپنے اپنے چاند کے لئے آہ و بکا اور گریہ و زاری کرتی رہیں۔ اور شام کو تھکی ہاری گھروں کو واپس لوٹ گئیں۔ کہیں کسی بوڑھے غمزدہ باپ نے، کہیں اداس چہرے لئے بچوں نے اور کہیں کسی بے بس بھائی نے لوٹ کر آنے والی اس مایوسی کا استقبال کیا۔

سورج ڈوب گیا، مگر امید دوسرے دن کے چاند کی طرح انتظار کے آسمان پہ نمودار ہے۔ یہ کبھی گھٹتا ہے، کبھی بڑھتا ہے۔ بس اسی طرح ان کے دن گزر رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کی سائنس ان لوگوں کو بھی اُن کے چاند کی رویت کروا دے۔ وہ کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ کس کے پاس ہیں یا کن کے ساتھ ہیں؟ بس ایک خبر لا دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).