صدر، وزیر اعظم نے حلف کی خلاف ورزی کی، مقدمہ چلایا جائے: افتخار چوہدری کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط


سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سپریم کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے ایک انتباہی خط میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وزیر اعظم عمران خان اور صد رعارف علو ی کی جانب سے ضابطے کی کارروائی مکمل کئے بغیر ہی ریفرنس براہ راست انکوائری کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجو ا دینے کے عمل کو آئین و قانون اور مروجہ طریقہ کار کی سنگین پامالی، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی خلاف ورزی، غیر آئینی و غیر قانونی اقدام اور صدر ووزیر اعظم کی اپنے حلف سے روگردانی قرار دیتے ہوئے اسے بغیر کسی مزید سماعت کے مسترد کر دینے اور صدر اور وزیر اعظم کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری 2005 کے رول 14 کے تحت مقدمہ چلانے کا حکم جاری کرنے کی استدعا کی ہے۔

روز نامہ جنگ کے پاس دستیاب خط کے مطابق سابق چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل  209 (5) (b)کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو انکوائری کی غرض سے ریفرنس بھجوایا ہے، انہوں نے اس حوالے سے آئین و قانون کی مختلف شقوں اور دفعات کاحوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر صدر کی رائے ہو کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہے، تو وہ معاملہ انکوائری کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا، انہوں نے لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48(1)کے تحت صدر اپنے تمام تر اقدامات وفاقی کابینہ یا وزیر اعظم کی ایڈوائس پر کرے گا، آرٹیکل 90اور99کے تحت وفاقی حکومت رولز آف بزنس تشکیل دے گی، رولز آف بزنس کے رول 15 A(1) کے تحت صدر سپریم جوڈیشل کونسل کو معاملہ بھجوانے سے قبل وزیر اعظم کی بھجوائی گئی سمری کا جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری دے گا اور معاملہ دوبارہ وزیر اعظم کو بھجوائے گا۔

سابق چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ اس ریفرنس سے متعلق جو معلومات میڈیا کے ذریعے حکومتی ذرائع کے حوالے سے افشا ہوئی ہیں، ان کے مطابق یہ ریفرنس ناقابل سماعت ہے، ان معلومات کے مطابق لاء ڈویژن نے اٹارنی جنرل کے اتفاق رائے سے وزیر اعظم کو اس ریفرنس کی سمری بھیجی ہے، جس پر وزیر اعظم نے صدر کو آئین کے آرٹیکل 209(5) جسے آرٹیکل 48 کے ساتھ پڑھا جائے گا، کے مطابق عمل کرنے کا کہا ہے۔

انہوں نے ایک ٹیبل بنا کر متعلقہ آرٹیکلز کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 90 وفاق کے اختیارات، آرٹیکل 91 کابینہ سے متعلق جبکہ آرٹیکل 99 وفاقی حکومت کے کنڈکٹ آف بزنس سے متعلق ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کے ان آرٹیکلز کی پی ایل ڈی 2016 SC 808میسرز، مصطفی ایمپیکس کراچی بنام حکومت پاکستان بذریعہ سیکرٹری خزانہ اسلام آباد کیس میں تشریح کرچکی ہے، جس کے مطابق وفاقی حکومت کابینہ اور وزیر اعظم پر مشتمل ہوتی ہے، نہ تو سیکرٹری، نہ وزیر اور نہ ہی وزیر اعظم بذات خود وفاقی حکومت ہوتا ہے اور مذکورہ بالا تینوں حکام بذات خود وفاقی حکومت کے طور پر اختیارات کو استعمال نہیں کر سکتے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اس کیس میں فاضل عدالت کی ان آرٹیکلز کی تشریح پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے، اولاً وزیر اعظم نے کابینہ کی منظور ی کے بغیر ہی صدر کو یہ ریفرنس بھجوایا ہے، اس لئے عدالت کی جانب سے طے شدہ اس قانون کے مطابق یہ ریفرنس ناجائز اور ناقابل سماعت ہے، دوئم صدر بھی اس ریفرنس کو عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مسترد کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسے غیر آئینی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوادیا ہے۔ اس لئے یہ ریفرنس ناقابل سماعت ہے اور اسے مسترد کردیا جانا چاہئے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209(8)کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنا ضابطہ اخلاق مرتب کیا ہے، جس پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز عملدآمد کے پابند ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ اس ریفرنس میں کسی جگہ پر بھی بیان نہیں کیا گیا ہے کہ فاضل جج ( جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ) نے ججوں کے ضابطہ اخلاق کی کسی شق کی خلاف ورزی کی ہے یا وہ ذاتی طور پر کسی ایسے معاملے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس حوالے سے ان پر ضابطہ ا خلاق کی پامالی کا ایک الزام بھی نہیں، ماسوائے اس بات کے کہ ان کی اہلیہ اور بچے ملک سے باہر جائیدادوں کے مالک ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2000کی دفعہ 116 کے تحت وہ کسی صورت میں بھی اپنی خودکفیل اہلیہ اور خود کفیل بچوں (جوکہ ان پر انحصار ہی نہیں کرتے ) کے اثاثوں کا اپنے اثاثوں کے سالانہ گوشوارے میں ذکر کرنے کے پابند نہیں، اندریں حالات ریفرنگ اتھارٹی کسی بھی قانون کے تحت یہ نہیں کہہ سکتی کہ انہوں نے ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک جج اپنے ذاتی کنڈکٹ کا تو ذمہ دار ہوتا ہے لیکن وہ اپنے خو دکفیل بچوں یا خود کفیل اہلیہ کے کنڈکٹ کا ذمہ دار نہیں ہوتا، انہوں نے مزید لکھا ہے کہ صدر اور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل  42اور 91(5) کے تحت اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ ان کے پاس جو بھی اہم معاملہ غور کے لئے آئے یا کسی بھی اہم معاملہ سے واقف ہوں، اسے بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بھی افشا نہیں کرسکتے، تاہم اس معاملے میں سپریم جودیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت سے قبل ہی ریفرنس کا کچھ متن اور کچھ دستاویزات عام کردی گئی ہیں، جس کی وجہ سے فاضل جج (مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) اور سپریم کورٹ بطور ادارہ بدنام ہوئے ہیں، اس لئے آئینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم کے خلاف اپنے حلف سے رو گردانی کی پاداش میں مقدمہ چلانے کا حکم جاری کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).