ملتان کا ’رن مرید‘ ہوٹل: ’چھپائی والے کاریگر کو ہوٹل کا نام بتایا تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا‘


رن مرید ہوٹل

ملتان کی زرعی یونیورسٹی کے عقب میں واقع نسبتاً کم گنجان گلی میں ایک سائن بورڈ آویزاں ہے جسے دیکھ کر راہگیر زیرِ لب مسکرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

یہ سائن بورڈ ’رن مرید‘ نامی ڈھابے (ہوٹل) کا ہے۔

’رن مرید` کے نام سے کھلے اس ڈھابے میں داخل ہوں تو کھانا بنانے اور پیش کرنے والے سبھی نوجوانوں کو دیکھ کر یہی گمان گزرتا ہے کہ یونیورسٹی میں کلاس اٹینڈ کرتے کرتے یہاں آ نکلے ہیں۔

باورچی سے ویٹر تک سب کو ہدایات دیتی اور گاہکوں کو ڈیل کرتی انھی کی عمر کی ایک نوجوان خاتون ہے۔

عروشیہ امتیاز رن مرید نامی اس ہوٹل کی مالک اور منتظم ہیں۔ عمر بائیس برس ہے۔ کہتی ہیں بچپن سے بزنس کرنے کا سوچا تھا۔ ہوٹل کھولا اور نام رکھنے کا مرحلہ درپیش ہوا، طے کر لیا کہ نام ’رن مرید‘ ہو گا۔

اب یہ نام ذہن میں کیونکر آیا؟ تو نام کے پیچھے ان کے والد کی کہانی نکلی۔

یہ بھی پڑھیے

خلا میں لگژری ہوٹل کے قیام کا اعلان

’کھانا کھایا، شراب پی اور بل دیے بنا فرار ہوگئے‘

پشاور کے تندوری چکن کا دہلی تک کا سفر

رن مرید ہوٹل

’بابا کو ان کے بہن بھائی رن مرید کہتے تھے کیونکہ وہ گھر پر ماما کی مد د کرتے تھے۔ مجھے یہ لفظ مزاحیہ ہی لگا لیکن ماما نے بتایا کہ ہنسنے کی بات نہیں یہ ایک سنجیدہ بات ہے۔ تو تب میں نے سوچ لیا کہ بابا کے مددگار شوہر ہونے پر مجھے فخر ہے اور انھی کے اعزازمیں ہوٹل کا نام یہی رکھا جائے گا۔‘

عروشیہ کی ڈگری مکمل ہونے پر ان کے خاندان نے معاشرتی روایت نبھاتے ہوئے ان کی شادی کروانے کی کوشش کی لیکن عروشیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت انھوں نے ہوٹل اور اس کے نام کا اعلان کر دیا۔ ’کوئی جل گیا کسی نے دعا دی‘ کے مصداق والدین اور چند دوستوں نے ان کا ساتھ دیا جبکہ شروع میں اکثر لوگوں نے اس نام پر مذاق بھی اڑایا۔

’ایک ہی دن میں جگہ اور سٹاف کے بندوبست کے بعد ہم پینا فلیکس بنوانے پہنچے تو کاریگر نے پوچھا نام کیا چھاپیں۔ میں نے کہا ’رن مرید ہوٹل‘۔۔۔ ایک لمحے کو خاموشی ہوئی اور پھر کاریگر کے منہ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹا۔ وہ ہنستا چلا گیا اور جب اس کا دورہ ختم ہوا تو اس نے چھپائی کی حامی بھری اور ہم سے پیسے بھی نہیں لیے۔‘

رن مرید ہوٹل

عروشیہ کے والد امتیاز الحسن کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد اپنی بیویوں کے ساتھ گھر کے کاموں میں تعاون کرتے ہوں یا ان سے انسیت کا برملا اظہار کریں تو یہی کہا جاتا ہے کہ ’ایہہ بیوی دے تھلے لگ گیا اے۔‘

’اور اب تو دوست یار کہتے ہیں کہ بیٹی نے تم پر رن مرید کا لیبل پکا کر دیا ہے، لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا۔‘

عروشیہ کے پارٹنر نعیم بھی انھی کی طرح ایک نوجوان ہیں۔ یونیورسٹی کے عقب میں واقع ہونے کے باعث رن مرید ہوٹل کے اکثر گاہکوں میں طلبا اور اساتذہ شامل ہیں جبکہ کم قیمت کھانا ہونے کی وجہ سے آس پاس کا مزدور طبقہ بھی بڑی تعداد میں یہاں آتا ہے۔

رن مرید ہوٹل

گاہکوں میں چند طلبا سے بات ہوئی تو ان میں سے اکثر نے اس نام کی پذیرائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیوی تمام دن شوہر کی خدمت کرے تو اسے کوئی شوہر مرید نہیں کہتا لیکن مرد بیوی کے لیے کام کاج کرے تو اسے رن مرید کہہ کر شرمندہ کیا جاتا ہے۔ ایک طالب علم نے تو سینہ ٹھونک کر کہا کہ شادی کے بعد وہ ضرور رن مرید کہلوانا پسند کرے گا۔

عروشیہ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس نام سے جڑے شرمندگی کے احساس پر قابو پا رہے ہیں۔ ہوٹل کھولنے کے بعد سے ہنسی مذاق میں ہی سہی لیکن بات چیت کا ایک در کھلا ہے اور انھیں خوشی ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں اس سوچ کو قبولیت ملی ہے کہ ہمدرد، مددگار اور حساس شوہر ہونا کوئی گالی نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp