گیانا: تیل کے ذخائر برآمد ہونے کے بعد کیا یہ دنیا کا امیر ترین ملک بن جائے گا؟


تیل

یہ سننے میں ناقابل اعتبار لگتا ہے لیکن گیانا کی ساڑھے سات لاکھ آبادی کی فی کس دولت آسمان کی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہے

جنوبی امریکہ کا دوسرا غریب ترین ملک گیانا تیل کی دریافت کے بعد خطے کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا گیانا تیل کی نام نہاد لعنت سے بچ کر اسے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کر سکے گا؟

گذشتہ برس نومبر میں گیانا کے دارالحکومت جارج ٹاؤن میں امریکی سفیر پیرے ہولووے نے بتایا ’بہت سے لوگوں کو ابھی تک یہ پتا ہی نہیں کہ یہ کتنی بڑی بات ہے۔‘

’سنہ 2025 آنے دیجیے یہاں کی جی ڈی پی میں 300 فیصد سے 1000 فیصد تک کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ بہت وسیع ہے۔ آپ اس خطے کے امیر ترین بلکہ ممکنہ طور پر دنیا کے امیر ترین ملک بن جائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیے

تیل کی قیمتوں کی سیاست

سعودی عرب کے پاس تیل کا کتنا ذخیرہ موجود ہے؟

تیل کی پیداوار: ’اس دغابازی کی قیمت ادا کرنی پڑے گی‘

یہ سننے میں ناقابل اعتبار لگتا ہے لیکن گیانا کی ساڑھے سات لاکھ آبادی کی فی کس دولت آسمان کی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہے۔ گیانا کے تیل کے مرکزی آپریٹر ایگزون موبل کے مطابق انھوں نے بحر اوقیانوس میں گیانا کی سمندری حدود کے نیچے 5.5 بلین بیرل مالیت کا تیل دریافت کیا ہے۔

تیل ایک لعنت؟

لازمی طور پر پیسے کا استقبال کیا جائے گا۔ برطانیہ کی اس سابقہ کالونی اور جنوبی امریکہ میں یہ واحد ملک ہے جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے جبکہ یہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح زیادہ ہے۔

لیکن تاریخ میں گیانا کے لیے عبرت بھی ہے۔ دوسرے ترقی پذیر ممالک میں تیل کی دریافت سے کرپشن میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور تیل کی اس نئی دولت کو لوٹا گیا ہے۔ جس سے یہ تیل کی لعنت کے طور پر جانا جانے لگا۔

تیل

دوسرے ترقی پذیر ممالک میں تیل کی دریافت سے کرپشن میں اضافہ دیکھا گیا ہے کیا گیانا اس سے بچ پائے گا؟

عالمی انسداد دہشت گردی کی غیر سرکاری تنظیم ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کے مقامی سربراہ ٹرائے تھامس کا کہنا ہے کہ گیانا میں ’کرپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ تیل کی لعنت کے بارے میں ’بہت پریشان‘ ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے ایک سیاسی بحران کو کچھ لوگ اس کے اثرات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

دسمبر میں حکومتی اتحاد کے اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد انتخابات کے اعلان کے بجائے اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا۔

اس لیے وہاں احتجاج شروع ہو گئے۔

صدارتی دفتر کے باہر سڑک پر کھڑی ایک خاتون نے بتایا ’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے آئین کی عزت کرے۔‘ انھوں نے مزید کہا ’یہ صرف اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اور تیل سے ملنے والے پیسے کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔‘

قانونی لڑائی جاری ہے اور رواں ہفتے کیریبیئن کورٹ آف جسٹس میں مقدمے کی تازہ ترین اپیل پر سماعت بھی کی جائے گی۔

تعلیم پر سرمایہ کاری کی ضرورت

گیانا کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے نئے سربراہ وینسٹ ایڈم، جنھوں نے 30 برس تک امریکی محکمۂ توانائی میں کام کیا ہے کہتے ہیں کہ ’ہم نے دوسرے ممالک میں دیکھا ہے کہ انھیں تیل کی دولت ملی اور ان میں سے بہت سے ممالک کی ملکی حالت تیل ملنے سے پہلے کی مالی حالت سے بھی خراب ہے۔‘

تیل

وینسٹ ایڈم کہتے ہیں دوسرے ممالک میں دیکھا ہے کہ انھیں تیل کی دولت ملی تاہم ان کی مالی حالت پہلے سےبھی خراب ہوئی

وینسٹ ایڈم کے مطابق اس جال سے بچنے کا ایک طریقہ ہے: ‘تعلیم، تعلیم اور تعلیم ہی بنیاد ہے۔ یہ سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جو یہ ملک یا کوئی اور ملک کر سکتا ہے۔‘

وہ یونیورسٹی آف گیانا، جو ملک میں تعلیم فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے، میں شعبۂ انجینیئرنگ کو بہتر بنانے کی کاوشوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ لیکن ملک کے نوجوان طبقے کو نئی منافع بخش صنعت کے لیے تیار کرنا آسان نہیں۔

شعبۂ انجینیئرنگ کی سربراہ الینا ٹرم کا کہنا ہے ’بدقمستی سے ہمارے پاس اس وقت پیٹرولیم انجینئرنگ پروگرام کے لیے لیبارٹریز موجود نہیں ہیں۔‘

اس سے متعلقہ تعلیمی قابلیت رکھنے والے افراد کو متوجہ کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔

’ہماری تنخواہیں بھی اتنی زیادہ نہیں ہیں‘ انھوں نے ایک معنی خیز ہنسی کے ساتھ کہا۔ ’لہذا یونیورسٹی آف گیانا میں لوگ درخواستیں تو دے رہے ہیں اور جب ہم انھیں اپنی تنخواہیں بتاتے ہیں تو وہ وہ دراصل آفر قبول نہیں کرنا چاہتے۔‘

پھر بھی، اس ابتدائی مرحلے میں بھی، گیانا آئل انڈسٹری انجینئرنگ کے دیگر شعبوں سے گریجویٹس کو لے رہی ہے۔ دو سال پہلے 10 ملازمتیں دی گئیں۔ گزشتہ سال اسی کمپنی نے 20 مزید لوگوں کا مطالبہ کیا۔

الینا ٹرم کہتی ہیں ’اب وہ ہمارے طلباء کو ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں۔‘

تیل

شکوک و شبہات

جارج ٹاؤن کے غریب ترین ہمسایہ شہر صوفیا میں بہت کم امید ہے۔ خود تعمیر کیے گئے گھروں اور جھونپڑیوں میں سے چند ہی کو بجلی اور پانی تک رسائی حاصل ہے۔

نوجوانوں کا مرکز قائم کرنے والے کالن مارکس نے بتایا ’صاف صاف بات کی جائے تو یہ کمیونٹی شہر کی آبادی کا 10 فیصد حصہ ہے لیکن شہر کے 10 فیصد وسائل بھی یہاں خرچ نہیں کیے جاتے۔‘

اس سے تیل کے فوائد پھیلنے سے متعلق شکوک و شبہات کی وضاحت میں مدد ملتی ہے۔

’بہت سے لوگ اس بارے میں حساس ہیں۔ کیونکہ گیانا میں اس بارے میں مثبت سے زیادہ منفی خیالات پائے جاتے ہیں۔ اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ سیاسی سطح پر ایسا ہو رہا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ آپ سن رہے ہیں کہ گینی میں کیا ہوا، نائجیریا میں کیا ہوا۔ وینزویلا اگلا دروازہ ہے، آپ جانتے ہیں۔ لہذا لوگ بہت زیادہ حساس ہیں اور یقین نہیں کر رہے۔‘

’اس طرح کی نچلی سطح کی کمیونٹی میں، لوگ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا تیل سے کوئی پیسہ آئے گا، ہمیں اس میں حصہ چاھیے۔ ہم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp