غلاموں کو غصہ کیوں آتا ہے؟


حالیہ بھارتی لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی اور راہول گاندھی سے لے کر نچلے لیول تک کے امیدواروں اور نیتاؤں نے جلسوں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو کھلی زبان استعمال کی اسے سنا تو جا سکتا ہے مگر لکھا نہیں جا سکتا کیونکہ لکھنے پر فحاشی کا مقدمہ پکا پکا بن سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی پچھلے چار پانچ برس سے ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی جا رہی ہے اس کے لئے نیچ کا لفظ بھی اونچا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی موجودہ پولٹیکل کلاس بھلے ہر لحاظ سے مختلف ہو مگر سستی زبان کے فروغ میں ایک پیج پر بلکہ حالتِ مسابقت میں ہے۔

اگر پاکستان اور بھارت کی موجودہ حکمران اشرافیہ واقعی اشرافیہ ہوتی تو پھر اس کی زبان کا ڈی این اے بھی اس کی گواہی دیتا۔ ویسے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ آدمی اپنی زبان تلے پوشیدہ ہے۔

اشرافیہ کس قدر خالص ہے اس کا اندازہ لگانا ہو تو محض جلسے نہیں پریس کانفرنسیں اور ٹاک شوز دیکھ لیں۔زرا سی تنقید ہوئی نہیں کہ ناقد کے کپڑے اترنے شروع ہوئے نہیں۔ چور، ڈاکو، لٹیرے، زانی، یہودی، ہندو کی اولاد، نمک حرام ، مراثی، نو دولتئے، ماں اور بہنوں کے طعنے اور خواتین پر زومعنی فقرے اب کوئی انہونی نہیں بلکہ روزمرہ ہے ۔

سنتے ہیں کہ کبھی ایسی لچر بازارو گفتگو گھر کی ناقص تربیت کے دائرے میں آتی تھی مگر آج یہ اشرافیہ کا سکہ رائج الوقت ہے ۔کبھی عوام اشرافیہ کی زبان اپنانے کی کوشش کرتے تھے ۔ اب تاحدِ نگاہ گلیاری مساوات کے پھریرے لہرا رہے ہیں۔ان رول ماڈلز کے سائے میں ایک اور نسل اپنا سفر شروع کر رہی ہے۔جانے وہ اس لسانی و لفظیاتی زخیرے کو کس لیول تک لے جائے۔

ایسا نہیں کہ اصل اشرافیہ کا وجود نہیں مگر وہ فی زمانہ آپ کو کسی مذہبی و سیاسی جماعت یا ہجوم میں دکھائی نہیں دیتی۔یہ مٹھی بھر شرفا یا تو اردگرد کی زبوں حالی سے تھک ہار کر رفتہ رفتہ لاتعلق ہو چکی ہے یا لاتعلق بنا دی گئی ہے ۔دونوں صورتوں میں نشست و برخواست اور آدابِ کلام کے تہذیبی ربط کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔آج ریاست کے تمام شعبے اور ان کی فیصلہ سازی ایسے شرفا کے نرغے میں ہیں جو نہ علم دوست ہیں اور نہ ہی تہذیب دوست۔یہ اشرافیہ کسی تمدنی ارتقا کی نہیں بلکہ طاقت کی پیداوار ہے۔بھلے وہ طاقت جسمانی ہو یا راتوں رات کسی بھی زریعے سے حاصل ہونے والی سیاسی یا معاشی قوت ہو۔

اس اشرافیہ کی ترجیح سماج کو تہذیبی اعتبار سے آگے بڑھانا اور مثالیہ بننا نہیں بلکہ کہنی مار کے ہر قیمت پر خود کو آگے رکھنا اور دوسروں کو دبانا اور کچلنا ہے۔اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر اشرافی بننے والے نفسیاتی اعتبار سے کس قدر غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ان کی جان اپنی بقا کی فکر سے ہی نہیں چھوٹتی چے جائکہ وہ سماجی اقدار کے تحفظ و ترقی کے بارے میں سوچ پائیں اور زبان و بیان میں علمیت و بہتری لا سکیں۔

اشرافیہ کو کبھی خود سے بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اشرافیہ ہے۔اس کا روزمرہ، گفتگو، موضوعات، لہجے کا دھیما پن، نشست و برخواست اور سامنے والے سے اندازِ تخاطب ہی اس کے سطحی پن یا گہرائی کو کھول کے بتا دیتا ہے۔

مگر بعجلت فیکٹری میں ڈھالی گئی اشرافیہ کو بحرحال چیخ چیخ کر اپنا تعارف کرانے کی ضرورت پڑتی ہے۔اسے توجہ حاصل کرنے کے لئے گنجان سڑکوں پر فراریاں اور بی ایم ڈبلیوز دوڑانا پڑتی ہیں۔چالان کرنے والے یا تلاشی لینے والے کو تھپڑ مار کے اپنی طاقت ثابت کرنا پڑتی ہے۔

یہ بناسپتی اشرافیہ دلیل کی طاقت سے نابلد اور مدِ مقابل کو بلند آہنگ کے حربے سے خاموش کرا دینے کے ہنر سے ہی واقف ہوتی ہے۔چونکہ طاقت کی ہی پیداوار ہوتی ہے لہذا اپنے سے مضبوط کے آگے جھک جانا اور کمزور کو جھکا لینا ہی اس کی فطرت ہے۔ اگر کوئی خالص اشرافی ہو تو اس کی زنبیل میں کوئی نہ کوئی ایک آدھ اصول یا آدرش ضرور ایسا ہوتا ہے جس کے تحفظ کے لئے وقت آنے پر نتائج سے بے نیاز ڈٹ بھی سکتا ہے۔ایسے اب کتنے باقی ہیں ؟ مجھے بھی بتائیے گا۔

اگر اشرافی زبوں حالی دیکھنی ہو تو آج کے علما کے زبان و بیان ، قول و فعل ، نشست و برخواست ، بود و باش دیکھ لیں اور اس بابت گذرے کل کے علما کے قصے پڑھ لیں۔جناح اور نہرو کا سیاسی رکھ رکھاؤ اور زبان و بیان کسی سے سن لیں اور موجودہ وغیرہ وغیرہ کا اندازِ زندگی و اظہار بچشم دیکھ لیں۔وہ بھی اشرافی تھے اور یہ بھی خود کو اشرافی سمجھتے ہیں ۔

مچھلی ہمیشہ سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے ، دم تو آخر میں خراب ہوتی ہے۔ جب یہی نئی نویلی غیر اشرافی اشرافیہ برداشت ، بھائی چارے ، ہم آہنگی اور تہذیبی اقدار کی دیوالیہ گوہار دیتی ہے تو اس کے منہ سے جھڑنے والے ہر ایسے پھول کو عوام تازہ لطیفہ سمجھ کے گھر لے آتے ہیں۔

ہم جنوبی ایشائی کتنے اشرافی ہیں؟ اس کا اندازہ مجھے استنبول میں فروری دو ہزار تین میں چار روز گلیوں بازاروں میں پیدل گھوم کر ہوا۔ اس دوران مجھے ایک بھی ایسا منظر دکھائی نہیں دیا کہ دو راہ گیر سرِ بازار ایک دوسرے سے گتھم گھتا ہوں ، گالم گلوچ میں مبتلا ہوں یا چیخ چیخ کر مخاطب کر رہے ہوں۔ایک بار میں تھک کے نیلی مسجد کے بیرونی باغیچے میں سستانے کے لئے سنگی بنچ پر بیٹھ گیا۔برابر والے بنچ پر ایک بوڑھا ترک اخبار پڑھ رہا تھا۔ہم دونوں نے رسمی مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔اس نے پوچھا کہاں سے آئے ہو ۔میں نے کہا پاکستان سے۔

میں نے ججھکتے ہوئے کہا گر برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں ؟ اس نے ہمہ تن گوش ہونے کے لئے اخبار تہہ کر کے گود میں رکھ لیا۔ میں نے کہا چار دن سے اسی لاکھ آبادی کے اس شہر میں گھوم رہا ہوں ۔اس دوران سڑک پر لڑائی جھگڑا یا ایک دوسرے پر چیخنے کا کوئی منظر نہیں دیکھا۔کیا ترکوں کو غصہ نہیں آتا ؟ بوڑھا ہنسنے لگا ۔” بالکل آتا ہے اور جب آتا ہے تو بہت برا آتا ہے۔ مگر شائد ہم بات بات پر نہیں لڑتے جب تک پانی سر کے اوپر سے نہ گذرنے لگے ۔ہمارے ہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے جھگڑنا اور سرِ بازار چیخنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وجہ شاید یہ ہو کہ ترک کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔غلاموں کا چونکہ خود پر ہی بس چلتا ہے لہذا وہ بات بے بات ایک دوسرے پر اپنی فرسٹریشن نکالتے رہتے ہیں۔میری سمجھ میں تو یہی آ رہا ہے ۔آپ کی کیا رائے ہے؟ ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).