جسٹس فائز عیٰسی کے خلاف ریفرنس اور میڈیا ٹرائل


وزیر اعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کی بنیاد پر میڈیا ٹرائل جاری ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل کے انتخاب سے پہلے ہی اسے متنازع بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ ریفرنس اور جسٹس فائز عیسی کے خلاف لگائے گئے الزامات بہت معنی رکھتے ہیں۔ چنانچہ میں اس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالنا چاہوں گا۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق ایس 116 کے مطابق فائلرز کے لیے لازمی نہیں کہ وہ اپنی ویلتھ سٹیٹمنٹ میں اپنے خود مختار بیوی اور بچوں کی جائیداد کی تفصیل شامل کریں۔ آئی ٹی او صرف آمدنی پر ٹیکس لگاتی ہے نہ کہ اثاثوں پر۔ ویلتھ سٹیٹمنٹ ایک بیلنس شیٹ ہوتی ہے جو آمدنی سے حاصل کیے گئے اثاثوں اور ٹیکس ریٹرن کے بیچ مطابقت کو جانچنے کا کام کرتی ہے۔اگر اثاثے فائلر کی ٹیکس ریٹرن میں دکھائی انکم سے نہیں بنائے گئے تو اس طرح کے اثاثے ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے چاہے وہ اثاثے بیوی اور بچوں کے ہی ہوں جو انہوں نے اپنی رقوم سے خریدے ہوں۔ جسٹس عیسی نے اپنی بیوی اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے جو انہوں نے ایسی رقم سے خریدے تھے جو جسٹس عیسی کی نہیں تھی۔

اگر جسٹس عیسی کی بیوی نے برطانیہ میں فلیٹس ایک ایسی آمدنی سے خریدے ہیں جو پاکستان میں قابل ٹیکس نہیں ہے تو ان پر کوئی ٹیکس واجبات عائد نہیں ہوتے۔ ویلتھ سٹیٹمنٹ میں اثاثے ڈیکلیر نہ کرنے سے 20 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ لیکن بیوی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کو آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس فائز عیسی کا مس کنڈکٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

کیا صدر/وزیر اعظم کے پاس ثبوت ہے کہ برطانیہ میں فلیٹس جسٹس عیسی کی رقم سے خریدے گئے تھے؟ انہوں نے کس بنیاد پر یہ طے کر لیا کہ سپریم کورٹ کے جج فائز عیسیٰ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں؟ بچوں اور بیوی کی پراپرٹی ایسا کوئی جواز اس وقت تک فراہم نہیں کرتی جب تک کسی کے پاس یہ ثبوت نہ ہوں کہ یہ پراپرٹی جسٹس عیسی کی رقم سے خریدی گئی ہے۔

کیا وزیر اعظم نے ریفرنس کے بنیادی محرکات ایف بی آر چئیرمین کے ساتھ شئیر کر کے جسٹس عیسی کی طرف سے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کے معاملے میں رائے جاننے کی کوشش کی؟ ایف بی آر چئیرمین شبر زیدی نے 2017 میں واضح کیا تھا کہ اثاثوں کو ڈیکلیر نہ کرنا قابل سزا جرم نہیں ہوتا جب وہ ایسی رقم سے خریدی گئی ہو جو پاکستان میں قابل ٹیکس نہ ہو۔

تفصیل کے لیے ذیل کا لنک ملاحظہ کیجئے …

https://fp.brecorder.com/2017/12/20171208325204/

سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے پہلے ہی جسٹس فائز عیسی کے خلاف میڈیا ٹرائل شروع کر کے ان کی دیانت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوئے اور جسٹس فائز عیسی کے گھر والے منی ٹریل فراہم کر کے ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے فلیٹس جج کے پیسوں سے نہیں خریدے اور جج کلیر ہو جاتے ہیں تو اس میڈیا ٹرائل سے ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟ یہ ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد ہو گی یا صدر پر؟

جس جج کو حسب منشا قابو میں نہ رکھا جا سکے۔ اس پر یہ سوچ کر کیچڑ اچھالنا (جسٹس فائز عیسی نے فیض آباد دھرنا کیس میں کھل کر آرا کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھائے تھے اور اب 2023 میں وہ چیف جسٹس بننے کے اہل ہیں) کہ یہ ریفرنس کام آئے گا، بالکل درست نہیں ہے۔ یہ احتساب نہیں بلکہ انتقامی کارروائی ہے۔

اس وقت عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری دونوں نشانے پر ہیں۔ عدلیہ کی خود مختاری کے بغیر قانونی کی حکمرانی ممکن نہیں ہے۔ اگر ججز اپنی مدت ملازمت کے تحفظ کی یقین دہانی سے محروم ہو جائیں گے تو وہ غیر جانبداری نہیں دکھا سکیں گے خاص طور پر ان معاملات میں جہاں ریاست کے خلاف عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہو۔ تاریخی لحاظ سے ہماری عدلیہ ہمیشہ اسٹیبشمنٹ کی بی ٹیم رہی ہے اور ججز نے ہمیشہ ریاست کے جبری جرائم کو تحفظ فراہم کیا ہے۔

جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کے ذریعے ججز کو دراصل خبردار کیا گیا ہے کہ تمام ججز ریاست کے سامنے سر تسلیم خم کریں اور سرخ لائن کراس نہ کریں۔ اگر اس معاملے میں ڈی فیکٹو (زمینی حقیقت) جیت جاتا ہے تو ڈی جورو (قانونی جواز) مکمل ہو جائے گا۔

چوہدری افتخار محمد نے عدلیہ کی بحالی کے بعد سو مو ایکشنز کے ذریعے قانون کی حکمرانی کو سخت نقصان پہنچایا۔ لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس کی مزاحمت وکلا کی تحریک ایک درست اقدام تھا۔ اگر برطانیہ کے فلیٹس میں کی خریداری میں جسٹس فائز عیسی کی رقم شامل ہونا ثابت نہ ہو سکا تو قانون کے شعبے سے وابستہ افراد کو عدلیہ کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar