بادشاہ کا طوطا اور بھینس کا شکوہ!


عالی جاہ،

جب سے معلوم ہوا ہے آپ اپنے طوطے کے لئے طلسمی پنجرہ بنوا رہے ہیں کلیجہ منہ کو آیا ہوا ہے۔ صبح سے سوچ رہی تھی کہ آپ سے شکوہ کروں یا پھر رہنے دوں۔ طرح طرح کے وسوسے آتے رہے کہ آپ کہیں برا نہ مان جائیں۔ میرا بڑا بیٹا جو میرے وزیر اعظم کی طرح بہت انا پرست ہے اس نے بارہا کہا امی دفع کریں۔ گلہ کر کے اپنے آپ کو ہلکا نہ کریں۔ پہلے ہی جب سے آپ بڑے گھر سے نکلی ہیں آپ کا وزن دس پندرہ کلو گر چکا ہے – اب تو آپ کو دیکھنے سے لگتا ہی نہیں کہ آپ بھینس ہیں۔ لیکن میں نے سوچا گلہ بھی تو اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے۔ پھر آپ نے ہمیشہ ہماری عزت بڑھائی۔ جانے کتنے ہی بچوں اور بڑوں کو مشورہ دیا کہ بھینس کا دودھ پیا کرو تاکہ تمہارے دانت مضبوط ہو سکیں-

عالی جاہ،

آپ بہت بڑے ملک کے بادشاہ ہیں۔ دنیا کی عظیم فوج کی کمانڈ آپ کے پاس ہے۔ ججوں اور وزیروں سے آپ حلف لیتے ہیں۔ جب تک آپ اپنے دستخط نہ کریں کوئی قانون نافذ نہیں ہوسکتا۔ میں مانتی ہوں کہ آپ ان سب کاموں میں بہت مصروف ہیں لیکن کبھی آپ کو خیال آیا کہ بڑے گھر سے نکالے جانےکے بعد میری زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ کبھی ذہن میں آیا مجھے کھانا وقت پر مل رہا ہے یا میں بھوکی رہ رہی ہوں؟ میں بھی تو آپ کی رعایا ہوں۔ لیکن آج مجھے پتہ چلا کہ آپ کو توصرف اپنے طوطے کی فکر ہے – کیوں؟ اس لئے کہ میں کالی ہوں؟

جب مجھے بڑے گھر سے یہ کہ کر نکالا جا رہا تھا کہ میں کھاتی بہت ہوں اس وقت میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ میرا مان تھا کہ آپ ہمارے بادشاہ ہیں آپ ضرور خان صاحب کے کان کھینچیں گے۔ وہ ساس تو نہیں تھے جو بہو کوطعنے دیتی رہتی ہے یہ کھاتی بہت ہے۔ کیا میں پیزا کھاتی ہوں جو اتنا شور مچایا؟ اور پھر بھینس کھاتی ہے تو دودھ بھی تو دیتی ہیں۔ آپ انسان کیا کچھ نہیں کھا جاتے اور دیتے پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ میں انتظار کرتی رہ گئی لیکن آپ نے میری خبر نہ لی۔

کیا کیا خواب دیکھے تھے کہ تبدیلی آئے گی تو جو پلاسٹک سرجن امریکہ کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آئیں گے ان میں سے کسی سے میں سرجری کروا کر سفید ہو جاؤں گی۔ لوگ امیر ہو کر بکرے کا گوشت کھایا کریں گے اور یوں میرا کٹا ذبح ہونے سے بچ جائے گا۔ میں بھی اس کو سہرا باندھے دیکھ سکوں گی۔ لیکن تبدیلی کا سب سے پہلا شکارمیں خود ہی بن گئی۔ آپ کی حکومت نے میری آگے بین بجانے کے بجائے میری ہی بین بجا دی؟ عالی جاہ کیوں؟

آج ہر طرف شور ہے کہ بادشاہ اپنے طوطے کے لئے انیس لاکھ اڑتالیس ہزار روپے کا پنجرہ لے رہا ہے۔ اگرچہ آپ نے میرے ساتھ برا کیا لیکن میں پھر بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ اچھا سا پنجرہ لیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ پچھلے وقتوں میں دیو کی جان جب کہ آج کل بادشاہوں کی جان طوطوں میں ہوتی ہے۔ اس لئے اس طوطے کی حفاظت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا طوطا آپ کی طرح انتہائی ہنس مکھ اور سادہ طبیعت کا ہوگا۔ آپ کی طرح مسکرا مسکرا کر باتیں کرتا ہوگا، بن چکا نیا پاکستان کے نعرے لگاتا ہوگا، این آر او نہیں نہیں کے گیت الاپتا ہوگا، جب بھی آپ کو پریشان دیکھتا ہوگا، چلا اٹھتا ہو گا، “گھبرانا نہیں ہے”۔ ایسے طوطے کو بھی پنجرہ نہ ملے تو اور کسے ملے؟ میری دعا ہے آپ کا طوطا گلالئی کی طرح طوطا چشم نہ ہو جائے۔

آخر میں آپ سے ایک گزارش بھی کرنی ہے۔ آپ خان صاحب سے کہیں کہ مسلم لیگ کے جس متوالے نے مجھےخریدا ہے، اسے جیل بھجوا دیں۔ جہاں اتنے لوگوں پر مقدمات بنوا کر حوالات کی سیر کروا رہے ہیں، اسے بھی کروا دیں۔ میں چئیرمین نیب سے درخواست کرتی لیکن اب ان سے ڈر لگتا ہے۔ یہ متوالا خان صاحب کی تقریر سنتے ہی ہنسنے لگتا ہے، اپنا بجلی کا بل دیکھ کر یہ حکومت کو بہت گالیاں دیتا ہے- اس کی ساس اس کے گھر آنے کی اطلاع دے تو شور مچانے لگتا ہے تبدیلی آ رہی ہے، تبدیلی آ رہی ہے۔ اب جب سے اس نے آپ کے طوطے کے پنجرے کا سنا ہے، میرے کٹے کو طعنے دے رہا ہے، کہتا ہے،

سنُ وے بلوری اکھ والیا،

پہلے کالی مجاں نوں نکالیا،

فیر بادشاہ نے طوطا اک پالیا،

اودے لئی پنجرہ بنا لیا،

 مزا تبدیلی و لا آ گیا۔۔۔

اسے بس جیل بھجوا دیں۔

فقط

بھینس (تبدیلی سرکار کا پہلا شکار)

سابق مقیم

وزیر اعظم ہاؤس، اسلام آباد، پاکستان

حال مقیم

مچھر کالونی، کراچی، نیا پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).