عمران خان کے سنہرے دن


عمران خان کا نصف شب سے ذرا پہلے والا خطاب اگلے دن سنا۔ خطاب کیا تھا بھوکے شیر کی دھاڑ تھی یا کاؤنٹر ٹائیگر کا وار تھا۔

لوگ پتہ نہیں کیوں تکنیکی خرابی کے پیچھے پڑے ہیں، آواز غائب ہو جانے پر سازشی کہانیاں بُن رہے ہیں۔ مجھے تو لگا کہ آواز شاید اس لیے غائب کرنا پڑی کہ خان صاحب جوشِ خطابت میں آ کر کہہ گئے ہوں گے کہ پتا ہے سب چوروں لٹیروں کو اندر کرنے کے بعد میں کیا کروں گا؟ اپنے آپ کو بھی اندر کروں گا!
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کون ہے جس کے منھ سے نصف شب کو کبھی ایسی بات نہیں نکلی۔

شیر کی اس دھاڑ میں بجٹ کا نوحہ دب سا گیا جو پوری قوم نے چند گھنٹے پہلے سنا تھا۔ مجھے فخر ہے کہ اس قوم کے زیادہ تر ادھیڑ عمر مردوں کی طرح میں بھی معاشیات کو روحانیت اور اخلاقیات کی شاخ سمجھتا ہوں اور سب لوگ جس دن ایماندار ہو جائیں گے اس دن ہم بھی دنیا کی امیر ترین قوم بن جائیں گے۔

جیسا کہ ہمارے محبوب چیف جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا تھا کہ پتا ہے پاکستان اور چین میں فرق کیا ہے؟ وہاں پر مالی سارا دن کام کرتا ہے اور ہمارا مالی آدھا گھنٹہ گوڈی کر کے سگریٹ پینے لگتا ہے۔

تو بجٹ والا نوحہ سن کر یہ سمجھ نہیں آئی کہ مالیاتی خسارہ کیا بلا ہے، دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوا یا کمی، صوبوں کو کیا زیادہ ملا کیا کم۔

بادی النظر میں بات پلاٹوں، گاڑیوں کی قیمتوں اور آٹے دال کے بھاؤ پر رہی ہے۔ چینی کی قیمت پر تین روپے ساٹھ پیسے اضافے کی تجویز سن کر دل اداس سا ہوا اور ایک پرانا فوجی لطیفہ یاد آ گیا۔

کئی سال پہلے فوجی افسروں کی تربیت، ان کی زندگی اور ان کی قربانیوں کے بارے میں ایک ٹی وی سیریل بنا تھا جس کا نام تھا سنہرے دن۔ اس کے ڈائریکٹر تھے پاکستان میں جدید ٹی وی کے بانی شعیب منصور اور یہ پاکستان کے سپر ہٹ ڈراموں میں سے ایک ہے۔

ڈرامے سے پہلے سکرین پر لکھا ہوا آتا تھا، آئی ایس پی ار کی پیشکش۔

اب آپ بھی دیکھیں کہ فوج نہ صرف جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرے، صحافیوں اور ججوں پر پہرا دے، نئی بستیاں بسائے بلکہ آپ کے لیے سٹریٹ ڈرامے بھی تیار کرے۔ اور آپ پھر بھی ناشکرے کہ ناشکرے۔

ڈرامے کا ایک سین بہت مشہور ہوا تھا جس میں ایک نئے افسر کو میس کا پرانا بیرا فوج میں چائے پینے کے آداب سکھاتا ہے۔ یہ مختصر سا لیکچر فوج کے اندر اور باہر طبقاتی کشمش اور ہماری خوراک کے فلسفے کا ایک مکمل روڈ میپ تھا۔

بیرا صاحب نے فرمایا کہ جب انسان جونیر افسر ہوتا ہے مثلاً کپتان تو دو چمچ چینی چائے میں ڈالو، مجیر آ جائے تو ڈیڑھ چمچ، کرنل آ جائے تو ایک چمچ، برگیڈئیر صاحب تو آدھا چمچ اور جنرل صاحب کو کوئی چینی نہیں۔

فوج سے باہر بھی ہمارا نظام کچھ ایسا ہی ہے۔ اوپر والے طبقوں کے لوگ شوگر فری کیک اور ڈارک چاکلیٹ کھاتے ہیں۔ درمیانے طبقے والے مٹھاس کے لیے چینی کے صحت مند متبادل ڈھونڈ لیتے ہیں، غریب مزدور طبقہ ایک کپ میں چار چمچے چینی بھی ڈال لیتا ہے۔ کہیں پر زردے کی دیگ پڑی ہو وہاں بھی پہنچ جاتا ہے، گرمیوں میں میٹھا شربت مانگتا ہے۔ کبھی نصیب کھل جائے تو گڑ کے ساتھ روٹی بھی کھا لیتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی سائنسی توجیہ نہ ہو لیکن بندہ مزدور کے اوقات اتنے تلخ ہیں اور تلخ تر ہوتے جا رہے ہیں کہ وہ اس تلخی کا توڑ اس چیز میں ڈھونڈتا ہے جو بازار میں دستیاب ہے اور اس کی پہنچ میں ہے۔

مڈل کلاس بچے جب روتے ہیں تو والدین انھیں ٹی وی یا کمپیوٹر پر کارٹون لگا دیتے ہیں، ہاتھ میں لولی پاپ پکڑا دیتے ہیں۔ ان نعمتوں سے محروم غریب بچوں کی مائیں ان کو چپ کرانے کے لیے ان کے منھ میں چینی کا آدھا چمچ ڈال دیتی ہیں۔

جس طرح عید قربان کے موقع پر کافی بھائی تین دن کے لیے قصائی بن جاتے ہیں اسی طرح بجٹ کے وقت کئی موسمی ماہر معاشیات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ عمران خان کا اس بجٹ سے کوئی لینا دینا نہیں، بجٹ تو کسی اور نے بنایا ہے۔

خان صاحب تو بس چوروں لٹیروں والے مشن پر لگے ہوئے ہیں۔ جو بھی ہو آخر ہمارے وزیراعظم تو وہی ہیں۔ قوم کے درد میں نصف شب کو زخمی شیر کی طرح دھاڑ پڑتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ان چوروں لٹیروں کو غریب کے بچے کے منھ سے چینی کا آدھا چمچہ نہ چھیننے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).