تعمیر وطن کی قابل فخر جہتیں


یہ عجب حسن اتفاق تھا کہ جس طرح مجھے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے پہلے درس قرآن میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، اسی طرح اسلامی جمعیت طلبہ کے اساسی اجلاس میں بھی شمولیت کا موقع ملا۔ یہ 23 دسمبر 1947 کی ایک انتہائی سرد رات تھی جس میں بلند پایہ صحافی اور جماعت اسلامی کے مرکزی راہنما مولانا نصراللہ خاں عزیز کے صاحبزادے جناب ظفراللہ خاں نے نوجوانوں کو نئی مملکت کے گوناگوں مسائل پر غور و خوض کی دعوت دی تھی۔ یہ اجلاس ہفتہ روزہ ’کوثر‘ کے دفتر میں منعقد ہوا جو گوالمنڈی، لاہور کی پھول بلڈنگ میں واقع تھا۔

وہ اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کر کے فارغ ہوئے تھے اور اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عمر حیات ملک تھے جو قیام پاکستان کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے منصب پر فائز ہو چکے تھے۔ انہوں نے ریاضی میں جرمنی سے پی ایچ ڈی کیا تھا اور آل انڈیا مسلم لیگ میں ہراول دستے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی راہنمائی میں اسلامیہ کالج کے طلبہ نے 1945۔ 46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی میں زبردست حصہ لیا اور قیام پاکستان کا راستہ ہموار کیا۔ وہ مشرقی بنگال کی اسمبلی کے ووٹوں سے دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے قرارداد مقاصد کی تیاری اور دفاع میں قابل فخر کردار ادا کیا تھا۔ وہ بلند پایہ دانش ور کے علاوہ ایک فائٹر بھی تھے۔

جناب ظفراللہ خاں کی صدارت میں نوجوانوں کا اجلاس شروع ہوا۔ انہوں نے بڑے موثر انداز میں ان چیلنجوں کا ذکر کیا جو روز بروز سنگین ہوتے جا رہے تھے۔ فرقہ وارانہ فسادات جو برصغیر میں 1946 سے جاری تھے، ان کی وجہ سے ستر پچھتر لاکھ مہاجر پاکستان آ چکے ہیں اور مزید آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ ہندوؤں اور سکھوں نے مشرقی پنجاب میں دس لاکھ مسلمان شہید کر دیے ہیں۔ اس قتل و غارت اور بڑے پیمانے پر آبادی کے تبادلے سے پورا انفراسٹرکچر اتھل پتھل ہو گیا ہے۔

پاکستان کے بیشتر دفاتر خالی پڑے ہیں جن میں اب مہاجر اور مقامی لوگ بڑی گرم جوشی اور بے مثال جانفشانی سے ذمے داریاں سنبھال رہے ہیں، مگر وسائل کی حد درجہ کمی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حصے میں ایک بھی بڑا کارخانہ نہیں آیا اور ہم بجلی بھی بھارت سے لے رہے ہیں۔ ریڈکلف ایوارڈ کی شدید نا انصافیوں سے مشرقی نہروں کے ہیڈ ورکس بھی انڈیا میں رہ گئے ہیں جس نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر سری نگری ائرپورٹ پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔

دوسری طرف ایسے عناصر موجود ہیں جو سیاست کو دین سے جدا دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا ع جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ ان حالات میں نوجوانوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بڑی قربانیوں سے حاصل کیے ہوئے وطن کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں جو زندگی کے ہر شعبے میں قیادت کا خلا پورا کر سکتی ہوں۔ ان کی تجویز تھی کہ اس عظیم کام کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ قائم کی جائے جو تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیرت سازی پر بھرپور توجہ دے اور علم و تحقیق میں ان کی راہنمائی کرے۔

حاضرین نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام کا اعلان ہو گیا۔ ظفراللہ خاں ناظم اعلیٰ منتخب کر لیے گئے۔ میں چھ ماہ بعد محکمۂ انہار میں بھرتی ہو گیا، تاہم اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں اور ملکی سیاست کے مدوجزر کا جائزہ لیتا رہا۔ اس دلچسپی کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے ایم اے پولیٹکل سائنس میں ’جماعت اسلامی کے انتخابی منشور‘ پر مقالہ اساتذہ سے منظور کرا لیا تھا، لیکن اکتوبر 1958 میں مارشل لا کے نفاذ سے مقالے کا نیا موضوع تلاش کرنا پڑا۔

دستور ساز اسمبلی جو انڈین انڈیپینڈنٹس ایکٹ آف انڈیا 1947 کے تحت ایک خودمختار ادارے کے طور پر وجود میں آئی تھی، وہ فروعات میں الجھتی گئی اور دستور سازی کا عمل سست روی کا شکار ہوتا رہا، تاہم وزیراعظم لیاقت علی خاں نے مارچ 1949 میں قرارداد مقاصد پیش کر کے آئینی سفر کی سمت کا واضح تعین کر دیا تھا۔ وہ سالہا سال آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور قائداعظم کے معتمد خاص رہے تھے۔ انہی کے اصرار پر قائداعظم 1935 میں لندن سے واپس ہندوستان آئے تھے حالانکہ وہ نہرو رپورٹ سے مایوس ہو کر سیاست سے دست کش ہو جانے اور انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ انہوں نے نوابزادہ لیاقت علی خاں کو غیرمعمولی اہمیت دی اور فیصلہ سازی میں انہیں اپنے ساتھ رکھا۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ قائداعظم کے صحیح مزاج شناس تھے۔

قرارداد مقاصد اسلام کی آفاقی تعلیمات اور جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کا ایک حسین امتزاج اور جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کی ایک شاہکار دستاویز تھی۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اعلان کے ساتھ اقتدار کو ایک مقدس امانت قرار دیا گیا تھا اور یہ پابندی عائد تھی کہ اسے صرف عوام کے منتخب نمائندے ہی استعمال کرنے کے مجاز ہوں گے۔ اس اولین شق میں ہر نوع کی آمریت کے دروازے بند کر دیے گئے۔ قرارداد مقاصد کے مطابق عام شہری تمام آزادیوں کے حق دار قرار پائے اور اقلیتوں کے حقوق واضح طور پر متعین کر دیے گئے تھے۔

عدلیہ اور پریس کی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ جن دنوں قرارداد مقاصد اسمبلی میں زیربحث تھی، سید ابوالاعلیٰ مودودی ملتان جیل میں بند تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی جو دستور ساز اسمبلی کی نہایت معزز شخصیت تھے اور قائداعظم ان کا حد درجہ احترام کرتے تھے، انہوں نے مولانا ظفر احمد انصاری سے گزارش کہ کہ وہ مولانا مودودی سے مسودے پر مشاورت کریں۔ جناب انصاری، مولانا مودودی سے جیل میں ملے جنہوں نے فقط ایک آدھ جملہ اور چند الفاظ تبدیل کیے۔

وہی تبدیل شدہ مسودہ بھاری اکثریت سے دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا۔ جس وقت پاکستان کی تاریخ میں یہ عظیم کارنامہ سرانجام پا رہا تھا، تو اس دوران اور اس کے بعد اہل ہوس اللہ کی حاکمیت کے بجائے اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے سازشوں کے کیسے کیسے جال بچھائے، وہ داستان انتہائی روح فرسا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ اس کے باوجود تعمیر وطن کا سفر جاری رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments