رعونت دکھاتے مودی کو اب نظرانداز کر دیں


اپنی صحافتی عمر کی کم از کم دو دہائیاں خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ میں صرف کرنے کی بدولت بہت اعتماد سے میں یہ دعویٰ کرتا رہا کہ بھارتی انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد مودی سرکار بتدریج پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے راستے پر لوٹنا شروع ہوجائے گی۔ جمعرات سے کرغزستان میں شروع ہونے والا شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن ( ایس سی او ) کا سربراہی اجلاس اس ضمن میں انگریزی محاورے والی کھڑکی کھولنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

دریں اثناء میرے اس دعویٰ کو تقویت پہنچانے والے دو اہم واقعات بھی رونما ہو گئے۔ چین نے کئی برس کی مزاحمت کے بعد بالآخر بھارت کو معقولیت کی راہ پر لانے کے لیے مولانا مسعود اظہر کی اقوام متحدہ کی جانب سے تیار کردہ ”دہشت گردوں“ کی فہرست میں شمولیت کی حمایت کردی۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن ( ایس سی او ) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے سابق بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنے کی درخواست کی۔

اس کی خواہش کا احترام ہوا۔ کرغزستان میں ہوئے اس اجلاس کے دوران پاک۔ بھارت وزرائے خارجہ کی وہاں موجود ایک ہوٹل کی لابی میں ”اچانک“ گپ شپ بھی ہو گئی۔ سشما سوراج نے شاہ محمود قریشی کی زبان ”میٹھی“ کرنے کے لئے لڈو وغیرہ بھی تحفے میں دیے۔ سفارت کاری کی پیچیدگیوں کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے بھی میں اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہوں کہ پاک۔ بھارت جیسے ممالک کے وزرائے خارجہ کے مابین ”اچانک“ ملاقاتیں نہیں ہوا کرتیں۔

انہیں بہت مہارت سے سٹیج (Stage) کیا جاتا ہے۔ اس برس کے آغاز میں پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت میں پھیلے جنگی جنون کے تناظر میں مذکورہ ملاقات دونوں ممالک کے عوام کو ”نئے حالات“ کے لئے تیار کرنے کی ایک ماہرانہ اور سوچی سمجھی کوشش تھی۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نے بھارتی ہم منصب کو دونوں ممالک کے مابین مذاکرات کے آغاز پر آمادہ کرنے کے لئے ایک باقاعدہ چٹھی بھی لکھ دی۔ اس چٹھی کے لکھے جانے کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان سے درخواست کی کہ اس کے وزیراعظم کو ایس سی او سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستانی فضائی حدود سے پرواز کرنے کی سہولت فراہم کی جائے۔

پاکستان نے اس درخواست کا مثبت جواب دیا۔ اس جواب کی بدولت میں اپنے تئیں یہ طے کر بیٹھا کہ ایس سی او کانفرنس کے دوران پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے مثبت جواب وصول ہونے کے باوجود مگر بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے ترجمان کے ذریعے باقاعدہ اعلان کر دیا کہ نریندر مودی پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کے بجائے عمان اور ایران کی فضاؤں سے اُڑتے ہوئے کرغزستان پہنچے گا۔

ہمارے کچھ صحافیوں نے نقشوں سے رجوع کرنے کے بعد دعویٰ کیا کہ پاکستانی بلوچستان کے چند مقامات سے گزرے بغیر بھارتی وزیراعظم کا براستہ عمان اور ایران کرغزستان پہنچنا ممکن نہیں۔ بھارتی حکومت نے اس دعویٰ کی تردید کے لئے ”متبادل راستے“ کا نقشہ جاری کردیا۔ سکیورٹی کے خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسے نقشوں کا اجراء انتہائی غیر معمولی واقعہ ہوا کرتا ہے۔ میری دانست میں بھارتی وزیراعظم کے کرغزستان پہنچنے کے لئے ”متبادل راستے“ کے نقشے کا اجراء ضد بھری رعونت کا مجسم اظہار ہے۔

نظر بظاہر نریندرمودی جو پاکستان کے خلاف مسلسل زہر اُگلتے ہوئے گزشتہ ماہ بھارتی وزیراعظم کے منصب پر دوبارہ فائز ہوا ہے اپنے عوام کو یقین دلارہا ہے کہ اسے پاکستان سے مذاکرات کے آغاز کی جلدی نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران اس نے پاکستان کے خلاف جس نفرت کا اظہار کیا وہ فقط بڑھک بازی نہیں تھی۔ بہت غور کے بعد مگر یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ معاملہ شاید اتنا سادہ نہیں ہے۔ مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی فہرست میں ڈالنے کی حمایت کردینے کے بعد ہمارے یار چین کی شدید خواہش ہے کہ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کو بھی اقتصادی ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے ضروری ہے کہ پاک۔

بھارت تناؤ میں کمی آئے۔ کرغزستان میں عمران۔ مودی ملاقات اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس کے بعد دونوں ممالک باہمی مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت دیگر کئی دیرینہ مسائل کی راہ ڈھونڈسکتے ہیں۔ پیوٹن کاروس بھی اس ضمن میں چین کی بھرپور حمایت کررہا ہوگا۔ نریندرمودی پرخاموش سفارت کاری کے ذریعے کرغزستان میں پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کے لئے دباؤ مسلسل بڑھایا جارہا ہو گا۔ میری یہ سوچ اگر درست ہے تو بھارتی حکومت کا پاکستان سے باقاعدہ درخواست کے بعد ہماری جانب سے ظاہر ہوئی رضا مندی کے باوجود، کرغزستان پہنچنے کے لئے ”متبادل راستے“ کا انتخاب فقط بی جے پی کے انتہا پسند ووٹروں کی تسکین کے لئے نہیں ہوا۔

پاکستان کے ساتھ رعونت بھرا برتاؤ بھی اس کا واحد مقصد نہیں۔ انگریزی زبان والے Tantrumsجسے ہم اپنی زبان میں ”نخرے“ کہہ سکتے ہیں دکھاتے ہوئے درحقیقت بھارتی وزیراعظم چین اور روس کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہا ہے کہ اگر وہ پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات کروانے پر بضد ہیں تو اس ملاقات کے نتیجے میں اسے ”کچھ ایسا“ ملنا یقینی بنائیں جسے وہ بھارتی عوام کے سامنے لہراتے ہوئے اپنی ”فتح“ ثابت کرسکے۔ آج سے چند دن قبل لکھے ایک کالم میں آپ کو آگاہ کرچکا ہوں کہ ہندوانتہا پسندی کے فروغ کے لئے بھارت کے چند بڑے صنعتی گروپس کے بنائے ”تھنک ٹینک“ کے ذریعے اصرار کیا جارہا ہے کہ فی الوقت پاکستان سے مذاکرات کا آغاز ان کے ازلی دشمن کو معاشی بحران سے بچانے کے لئے ”Life Line“ فراہم کرے گا۔

بہت رعونت سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستانی معیشت ”مکمل تباہی“ کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔ تاریخی حوالے سے سوچیں تو قیامِ پاکستان کے فوری بعد کے سالوں میں بھی ہندو انتہا پسند اسی گماں میں مبتلا تھے کہ پاکستان ”ٹھوس“ معاشی وجوہات کی بناء پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ دوبارہ ”بھارت ماتا“ کی گود میں پناہ لینے کو مجبور ہوگا۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان نے ذہین ترین معاشی ماہرین کی معاونت سے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ پاکستان کی معیشت چند ہی مہینوں میں بھارت سے کہیں زیادہ توانا نظر آنا شروع ہوگئی۔

شاید اسی باعث قائد اعظم کی رحلت کے بعد لیاقت علی خان کو قتل کروادیا گیا تھا۔ مجھے اِن دنوں بھی اپنی قوم کی Resilienceپر اندھا اعتماد ہے۔ اس حقیقت کو نظر میں رکھتے ہوئے پاکستانی وزیراعظم سے دست بستہ التجا کرنے کو مجبور ہوں کہ نریندرمودی کی کافی دلجوئی ہوگئی۔ ہماری حدود میں گرائے بھارتی طیارے کے پائلٹ کو خیرسگالی کے جذبے سے رہا کردیا گیا تھا۔ بھارتی وزیراعظم کے دوبارہ انتخاب کے بعد اسے ترنت مبارک باد بھی دے دی گئی۔ بعدازاں دو خط بھی لکھے جاچکے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم ان تمام پیش قدمیوں کے باوجود رعونت دکھانے کو بضد ہے تو اسے ٹھنڈے مزاج سے نظرانداز کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کی بھرپور بحالی پر توجہ دی جائے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).