عزیز آباد کا پیر عرف بانی ایم کیو ایم


اہلِ کراچی ایک صبح اٹھے تو حیران رہ گئے، شہر کی تقریباً ہر دیوار پر ایک ہی تحریر جلوے بکھیر رہی تھی:

 ”قائدے تحریک، الطاف حسین“۔ کہیں کہیں لکھنے والے نے اس کلمے کی ترتیب بدل ڈالی اور لکھا: ”تحریکے قائد۔ “ تحریر سے لکھنے والے کی ذہنی سطح اور ذوق کا اندازہ خوب ہوتا تھا، برش پکڑنے کا سلیقہ اور نہ روشنائی کے استعمال کا قرینہ، کہیں قائد کے ”ق“ کی رال ٹپکنے لگتی اور کہیں تحریک کی ”ک“ بے وزن ہوجاتی۔ یہ چاکنگ میں نے دیکھی تو سوچا کہ جو لوگ اس قدر پھوہڑ ہوں، کیسی ہو گی ان کی تحریک اور کیا کرے گا ان کا قائد؟

لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد میری رائے بدل گئی۔ جانے کیا سبب رہا ہوگا کہ برادرم اقبال پاریکھ کے ساتھ سسپنس ڈائجسٹ کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ ایڈیٹر سے لے کر کاتب اور کاتب سے لے کر نائب قاصد تک ہر زبان پر ایک ہی نام کی تسبیح جاری تھی اور یہ نام وہی تھا جسے میں نے کراچی کی سڑکوں پر دیکھ کر تقریباً نظر انداز کر دیا تھا۔ ایڈیٹر صاحب کے خیالات کو اختصار کے کوزے میں بند کیا جائے تو یوں ہوگا کہ آگیا وہ شاہ کار جس کا انتظار تھا۔ ”گویا نرگس کی بے نوری ختم ہوئی؟ “۔ میں نے بات آگے بڑھائی تو میزبان بدمزہ ہوئے، اقبال ؒ کا بالواسطہ ذکر بھی انھیں خوش نہ آیا، میری بات تقریباً کاٹ کر کہنے لگے کہ یہی شخص ہے جو مہاجروں کے دکھوں کا مداوا کرے گا۔

ایڈیٹر صاحب سے مل کر ہم ادارے کے سربراہ کے ہاں گئے، اُن کے یہاں بھی یہی موضوع زیر بحث تھا، انھوں نے اپنی بات ایک مثال کے ذریعے واضح کی، کہا کہ الطاف حسین دوسرے بھٹو ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، الطاف حسین جب تازہ تازہ امریکا سے لوٹے تھے اور ان کے چاہنے والوں نے ان کا ایسا پُرجوش استقبال کیاتھا، عام حالات میں جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ چند ہی روز کے بعد نشتر پارک میں ایک جلسہ ہوا، نشتر پارک لاہور کے موچی دروازے کی طرح کراچی کی معروف جلسہ گاہ ہے، بزرگ صحافی کہا کرتے کہ جس جماعت نے یہ پارک بھر لیا، سمجھ لو وہ کامیاب ہوگئی اور یہ جلسہ ایسا ہی تھا جس نے ایک نوزائدہ جماعت اور اس کے رہنما کا بیڑا پار لگا دیا تھا۔

الطاف حسین کون تھے اور کیا چاہتے تھے؟ یہ کوئی معمہ نہیں تھا کیوں کہ سندھ میں دیہی اور شہری تقسیم کے اثرات کی گہرائی لوگوں کی رگ وپے میں سرایت کر چکی تھی۔ الطاف حسین وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس تقسیم کے سبب اردو بولنے والوں کی محرومی کو جارحانہ زبان عطا کی لیکن یہ بھی ایک عجب اتفاق ہے کہ پرانے سندھیوں سے شکایت رکھنے اور اس بنا پر مقبولیت حاصل کرنے والے اس رہنما نے نشتر پارک میں پہلی بار زباں کھولی تو اہلِ پنجاب کو مطعون کیا، ان کے بعد پشتو، سندھی پھر دیگر زبانیں بولنے والوں کی باری آئی۔ اس طرح اردو بولنے والوں کی پاکستان کی تقریباً تمام لسانی اکائیوں کے ساتھ تصادم کی صورت حال پیدا کردی گئی۔

وہ بھی کیا اتفاق تھا کہ دوران تقریر نشتر پارک کے اوپر سے ایک طیارے کا گزر ہوا جسے دیکھ کر مقرر کے جسم میں جیسے بجلی بھر گئی، اُس نے تڑپ کر آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ جانتے ہو یہ طیارہ کس کا ہے؟ اہل جلسہ نے جواب دیا کہ پی آئی اے کا، جس پر انھوں نے کہا کہ ہے تو یہ پی آئی اے کا لیکن یہ پی پاکستان کی نہیں پنجاب کی ہے۔ یہی جلسہ تھا جس میں الطاف حسین نے اردو بولنے والوں کو ٹیلی ویژن اور وی سی آر بیچ کر اسلحہ خریدنے کا مشورہ دیا تھا۔

الطاف حسین اب مہاجروں کے بلاشرکتِ غیرے قائد اور مہاجر قومی موومنٹ کے قائد تحریک تھے۔ کراچی میں مقبولیت کا جھنڈا گاڑنے کے بعدان کی اگلی منزل حیدر آباد تھی۔ وہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر کے لیے عازم ِ سفر ہوئے تو شہر کے مقام ِ خروج یعنی سہراب گوٹھ پر ایک سانحہ ہوگیا۔ اردو اور پشتو بولنے والوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جس پر انھیں کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ یہ گرفتاری اس اعتبار سے یاد گار ثابت ہوئی کہ پولیس کی تفتیش سے کھلا کہ وہ تو اس جماعت کے چار آنے کے ممبر بھی نہیں جس کا انھیں قائد کہا جاتا ہے۔ اپنے بیان میں انھوں نے انکشاف کیا کہ میں ایم کیو ایم کا ممبر نہیں ہوں، ساتھی مجھے بوجہ محبت قائد تحریک کہہ لیا کرتے ہیں۔ اس دعوے میں الطاف حسین کچھ ایسے غلط بھی نہ تھے۔ ایم کیوایم کے (پہلے اور آخری) چیئرمین عظیم احمد طارق مرحوم نے ایک بار بتایا کہ 80 ء کی دہائی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ صرف طلبہ کے درمیان کام کرنے سے اُن مقاصد کا حصول ممکن نہیں جن کے لیے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن قائم کی گئی تھی، لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ اب زندگی کے دیگر شعبوں، خاص طور پر قومی سیاست میں بھی حصہ لینا چاہیے، چنانچہ مہاجر قومی موومنٹ قائم کردی گئی۔ عہدے داروں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو الطاف حسین یاد آئے جو ان دنوں امریکا میں مقیم تھے، انھیں ایم کیوایم کے قیام کی اطلاع دی گئی اور دریافت کیا گیا کہ جدوجہد کے اس مرحلے پر ان کی شرکت کب تک متوقع ہو گی؟

الطاف حسین نے بتایا کہ وہ اب امریکا میں مستقل قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یوں ان کے بغیر ہی انتخاب عمل میں آ گیا لیکن ٹھیک دو برس بعد جب وہ پاکستان واپس آ گئے تو سوال پیدا ہوا کہ اب انھیں کیسے کھپایا جائے۔ بہت سوچ بچار کے بعد تجویز سامنے آئی کہ قائد کا منصب ان کے شایانِ شان رہے گا اور جماعت میں ان کی حیثیت وہی ہوگی جو کانگریس میں گاندھی جی کی تھی۔ کانگریس نے گاندھی کو عزت دی تو انھوں نے بزرگ بن کر دکھایا، کانگریس کے تنظیمی معاملات سے کوئی واسطہ نہ رکھا لیکن الطاف حسین کا معاملہ جداتھا، وہ قائدبنے تو گویا تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں آگئے اور ان کے مقابلے میں کسی کا چراغ نہ جل سکا، سوائے عظیم احمد طارق کے اور وہ بھی کسی قدر لیکن جب ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا تو اس کے بعد کوئی بھی ایسا نہ رہا جو الطاف حسین کی ہم سری کا دعویٰ کرسکتا۔

الطاف حسین کے سیاسی کیرئر کا آغاز جامعہ کراچی سے ہوا تھا لیکن اس مادر علمی میں ان کی سیاست زیادہ نمایاں نہ ہوسکی۔ یونیورسٹی میں طلبہ کی بڑی تعداد ان سے کنی کترا کر گزر جاتی یا ان کی سرگرمیوں میں تفننِ طبع کے پہلو تلاش کیے جاتے، کچھ لوگ تو تشدد سے بھی باز نہ آتے۔ طلبہ سیاست کے مقابلے میں الطاف حسین کی شہری اور اس کے بعد قومی سیاست زیادہ کام یاب رہی۔ ان کی تقریر میں غور وفکر کے پہلو اگرچہ اب بھی زیادہ نہ ہوتے، وہ اکثر کڑوی کسیلی گفت گو کرتے یا پھر ضلع جگت سے کام لیتے۔

نواب شاہ کے قریب کسی قصبے میں ایک جلسے میں کسی نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تووہ برہم ہوگئے اور کہا کہ میرے جلسے میں یہ نعرہ لگانے کی اجازت نہیں، یوں 1988 ء میں مزار قائد پر قومی پرچم کی بے حرمتی کی یاد ایک بار پھر تازہ ہوگئی۔ 1993 ء میں جب فیڈرل بی ایریا میں صغیر سنٹر پر پھر یہی حرکت دہرائی گئی تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے بارے میں یہ طرزِ عمل خوب سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3