ماؤں کی جھنجھلا دینے والی صبحیں بھی خوبصورت ہیں


ماؤں کی بیشتر صبحیں ایسی ہی کیوں ہوتی ہیں؟ بھاگ دوڑ، اٹھا پٹک، گھڑی کی سیکنڈ کی سوئی کے ساتھ چلتے پاؤں ایک قدم ادھر ایک قدم ادھر، ایسا بھی تو ہو سکتاہے کہ صبح کے ایک دو گھنٹوں کا وقت ذرا تھم کر چلا کرے یا دو تین گھنٹوں کے بعد کی گھڑیاں سویرے والیوں سے اپنی جگہ ادل بدل کر لیا کریں۔ اگر یہ پڑھتے ہوئے آپ کو میری ذہنی حالت پہ کچھ شبہ ہو رہا ہے تو بالکل ٹھیک ہے کیونکہ ہم ماؤں کی ذہنی حالت صبح سویرے کچھ ایسی ہی ہو تی ہے اور اس کیفیت میں تھوڑا اور اضافہ ہو جاتا ہے جب میاں جی دورے پہ ہوں۔

آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا صبح چار بجے انھیں خدا حافظ کہا پھر نیند کا ایک جھونکا، سویرے سویرے بستر سے نکلنا پہلے ہی ایک امتحان اس پہ سب کو اٹھانے کا فریضہ سر انجام دینا پڑے تو کوفت اور جھلاہٹ غالب آ جاتی ہے۔ چھوٹے صاحب ابھی اسکول نہیں جاتے ان کو اٹھانا سب سے مشکل کام ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ اسکول جانا ہو نہ کام پہ ایسے میں کوئی ہمیں صرف اس لیے نرم گرم بستر سے نکالے کہ بہن اور بھائی کو چھوڑنے جانا ہے تو ہم بھی وہ فساد برپا کریں کہ الامان الا حفیظ لیکن جب وہ یہی کام کرتے ہیں تو سمجھ نہیں آتا کے کیا کریں۔

نیند سے جگانے کا مرحلہ تو پیار محبّت، گدگداتے طہ ہو جاتا ہے اس کے بعد باتھ روم لے جانا اور تیار کرنا ایک درد سر، ان کو بھی اسی وقت خیال آتا ہے کہ وہ گھر کے چھوٹے اور لاڈلے ہیں، کبھی ابّا کو آواز پڑتی ہے کبھی بھائی اور آپی کو کہ مصیبت کی گھڑی میں کس کو چارہ ساز اور غم گسار بنایں، کھینچ کھانچ کے جیسے تیسے کپڑوں میں فٹ کر بھی دیا تو کونے میں منہ دے کے وہ باجا بجایا کہ اللہ کی پناہ، اب ایک آواز بچوں کو ”جلدی کرو“ کہنے کے لئے لگ رہی ہے تو دماغ ناشتے اور لنچ باکس کی سوچوں میں اٹکا ہوا ہے۔ اس روٹھنے منانے سے فرصت ملے تو نیچے باورچی خانے کی طرف بھاگیں۔

اب ”کیا کھاؤ گے؟ “ کا راگ شروع ہوتا ہے۔ بڑے بچے اس عمر میں ہیں کہ خود سے بغیر پوچھے بنا کے رکھ دو تو بعد میں بیس فیصد کھایا ہوا اور اسی فیصد بچا ہوا آرگنک بن کی طرح اپنے اندر ڈالنا پڑتا ہے۔ ناشتے کے ساتھ لنچ کے مذاکرات شروع ہوتے ہیں، کتنی ہی سر طور کوشش کر کے صحت کے بہترین اصولوں کے مطابق اسکول لنچ دیا جائے۔ واپسی میں ہمارا ہی منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ کینیڈا میں رہتے ہوئے ان بچوں نے بچپن سے ”healty food“ اور ”food groups“ کے شاید جتنے سبق پڑھے شاید فقط ہمیں سکھانے کے لئے پڑھے۔ سچ تو یہ ہے کے ہم نے بھی خوراک اور صحت کے بارے میں ان کے ساتھ ساتھ ہی سیکھا لیکن مجال ہے جو ہمارے دیسی بچوں پہ کچھ اثر کر جائے۔ ان کا دل وہیں نہاری، حلیم اور بریانیوں میں اٹکا رہتا ہے۔ بھلا ہو فروزن فوڈ کا کہ مذاکرات کچوریوں پہ آ کے کامیاب ہوئے۔ اب صبح سویرے کچوریاں تلنا کیسا لگتا ہے اس ذکر کو رہنے ہی دیتے ہیں۔

اچانک لاڈلے کو خیال آیا کے انھیں تو ملائی پراٹھا کھانا ہے۔ یہ تفصیلی ناشتہ بھگتائے بغیر نکلنے کا مطلب ہے کہ چالیس منٹ کی ڈرائیو میں سے بیس منٹ کے پکّے راگ اس لیے سب کی عافیت اسی میں ہے کہ ان کو ناشتہ کرنے دیا جائے کیونکہ ڈھائی سال کی عمر میں نیند پہ بھوک کا تڑکا جلتی پہ تیل کی مانند ہوتا ہے۔ گھڑی کی ٹک ٹک یونہی جاری ہے۔ مجال ہے جو ایک منٹ بھی رک جائے۔ اگر سات پچاس تک نہ نکلے تو وقت پہ پہنچنے کے لئے ٹول والی ہائی وے لینا پڑے گی اس کا مطلب ہے مبلغ چھ ڈالر یہ خیال آتے ہی ”جلدی کرو“ کی آوازوں اور آواز کی اونچائی میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بڑے والے کو دو بار کہا جا چکا تھا کہ بھائی کو جوتا پہنا دو، لیکن وہ تیار ہو کر خاموشی سے کچھ ڈھونڈنے میں مگن تھے۔

”اب کیا ہوا؟ “ ایسے موقع پر شاید اماں کی صلواتیں وہ واحد چیز ہوتی ہیں جن سے بچنے کے لئے چپ چاپ ہی اپنی گمشدہ چیز ڈھونڈی جا رہی ہوتی ہے۔ ”وہ میرا سوکر ٹیم کا فارم آج ڈیو ہے۔ مل نہیں رہا“، بس۔ عین وقت پہ اتنا سننے کی دیر ہے۔ کتنی ہی motivational speeches سنی ہوں سائیکالو جسٹس کے لیکچروں پہ غور و فکر کیا ہو یا پیرنٹنگ کے مضامین کا ڈھیر پڑھ ڈالا ہو اوربے شک سب نے مل کر یہ سبق پڑھایا ہو کہ ایسے موقعوں پہ پہلے مدد اور مرہم کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ نصیحت اور فصیحت کی لیکن جب دماغ اور ہاتھ پاؤں دونوں بری طرح ملٹی ٹاسکنگ میں مصروف ہوں تو سب سے فارغ زبان ہی رہ جاتی ہے سو نصیحت اور فضیحت سمیت ”جو کچھ“ بھی بن پڑا صاحب زادے کان دبا کر سنتے رہے۔ ان بچوں نے بھی جیسے قسم کھائی ہوئی ہے کہ دو دن کی چھٹی میں مزے سے ٹانگیں اچھالتے پھریں گے۔ دل بھر کے ٹی وی دیکھیں گے۔ کھیل کود کریں گے اور جو بھی کوئی بہت اہم کام ہوگا آخری وقت پہ تیلی لگانے کے کام آئے گا۔

اب توپوں کا رخ بیٹی صاحبہ کی طرف ہوا ”تم ہی چھوٹے بھائی کو جوتے پہنا دیتیں“، ان کی رندھی ہوئی آواز آئی یہ دیکھیں میری پن اسکارف میں پھنس گئی ہے۔ سبحان اللہ سیفٹی پن کو ایسے زاویے سے اسکول کے اسکارف میں اٹکایا تھا کہ سارے کس بل کھول کے ہی نکالتے بنی، اور وقت لگ گیا، ”یا اللہ میں ہی کیوں؟ “، اندر سے آواز آئی، اب چلو بھی، بڑے والے کی ڈھونڈھ اب بھی جاری تھی، دوسرا فارم لے کے وہیں بھر دینا، بات کر لیں گے۔ گھڑی آٹھ بجا چکی تھی یعنی آج بھی چھ ڈالر کا ٹیکا، چلو خیر ہے۔ شکر ہے موسم کچھ بہتر ہوگیا ورنہ ابھی جیکیٹیں، ٹوپے اور بوٹ مزید وقت کھا جاتے۔ ارے میں نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ایک مبہم سا خیال آیا، غٹا غٹ پانی چڑھایا، اور قافلہ گاڑی میں سوار ہوا۔

اب چھوٹو کی آنکھیں کچھ کھل چکیں تھیں، اماں کوکی کھانا ہے۔ اچھا ابھی تو نہیں ہے واپسی میں لے لیں گے۔ اسکول پہنچے تو پٹرول کی بتی آگئی، ایک اور کام، گھر پہنچنے سے پہلے ڈلوانا بلکے ڈالنا پڑے گا، اماں ”کوکی“ پھر آواز آئی، اچھا چلو مجھے بھی بہت بھوک لگ رہی ہے۔ پتا نہیں اگر کینیڈا میں ٹم ہارٹن نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ ٹم ہارٹن سے کوکی اور چائے وغیرہ لے کے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔ باہر بارش ہو رہی تھی، گھڑی کی گھڑیاں کچھ کچھ ٹھہریں تو سوچیں بھی کچھ پرسکون ہو گئیں لیکن سوچ کا محور وہی ماؤں والی فکریں اور ننھے ننھے پچھتاوے۔ ”بیچارے کا فارم آج جمع نہیں ہو سکا، مجھے بھی یاد رکھنا چاہیے تھا“، ”کل سب کو اور جلدی اٹھاونگی تاکہ وقت پہ نکل سکیں“ بس یہ ہفتہ ذرا مشکل ہے۔ چند دن اور ہیں پھر تو چھٹیاں ہونے والی ہیں ”، اور اگلے سال سے تو یحییٰ بھی اسکول جائے گا“، اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔

ایک صبح اور گزر گئی، یہ دن ایسے ہی گزر جاتے ہیں، پہلے ہم بچوں کی جگہ پر تھے۔ اب ہمارے بچے ہیں، کل ان کی جگہ ان کے بچے لے لینگے۔ یہ سویرے کی گھڑیاں کتنی ہی الجھی ہوئی، گھبرائی اور جھنجلائی کیوں نہ ہوں سچ تو یہ ہے کہ اسی بھاگ دوڑ سے رونق ہے۔ اسی مصروفیت سے زندگی میں رنگ ہیں، بس یہ رونق اور رنگ سلامت رہیں ماؤں کا کیا ہے ان کی صبحیں تو ہمیشہ سے ایسے ہی گزرتی ہیں اور شاید انھیں ایسے ہی خوبصورت لگتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).