محترم وزیراعظم ہوم ورک کر لیا کیجیے


ذاتی خیال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وقت ملک کے حالات کو خلوص نیت سے ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور ان کی نیت پہ نہ شبہ ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عالمی راہنما بھی ہیں۔ عالمی راہنما اس لییے کہ ان کے پاس ایک ڈبہ ہے جسے دنیا ایٹمی طاقت کا کنٹرول باکس کہتی ہے یا کچھ بھی اور اس ڈبے کی وجہ سے وہ عالمی دنیا میں توجہ کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

اب جب وہ عالمی سطح پہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں تو ان کا کسی بھی قسم کا طرز عمل پاکستان کے لیے مثبت و منفی دونوں رجحانات پیدا کر سکتا ہے۔

بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو رہا ہے۔ جس میں دیگر عالمی راہنماؤں کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان بھی شریک ہیں۔ روایتی پاکستانی لباس میں وہ یقیناًً بہت خوبصورت بھی لگ رہے تھے لیکن اس خوبصورٹی اور جاذبیت کے علاوہ ان سے درخواست یہ بھی ہے کہ وہ ہر دورے سے پہلے، ہر خطاب سے پہلے، ہر کانفرنس سے پہلے، ہر ملاقات سے پہلے تھوڑا ہوم ورک کر لیا کریں۔

خلیج ٹائمز نے ایک سرخی لگائی کہ پاکستانی وزیر اعظم نے سفارتی آداب توڑ دیے۔

نہ تو خلیج ٹائمز ان کے کسی مخالف کا ہے نہ ہی اس میں کسی پاکستانی کے شیئرز ہیں کہ کہا جا سکے کے کسی نے ذاتی مخاصمت نکالی ہے۔ یہ ایک عالمی میڈیا گروپ ہے اس لیے اس کی خبر پہ تنقید سے پہلے نظر بھی دوڑانی چاہیے۔

خبر کے مطابق وزیر اعظم پاکستان سفارتی آداب توڑتے نظر آئے کہ وہ جب ہال میں داخل ہوئے تو باقی موجود راہنما دیگر راہنماؤں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے رہے، ان راہنماؤں کے ساتھ تمام ہال میں موجود مندوبین بھی کھڑے رہے لیکن ہمارے وزیر اعظم محترم عمران خان آتے ہی نشست پہ براجمان ہو گئے۔

اب واقفانِ خان کہہ سکتے ہیں یہ تو ان کا اعتماد ہے کہ وہ کسی راہنما کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ تو اگر یہ واقعی اعتماد ہوتا تو متوجہ ہونے پہ کہ تمام باقی راہنما کھڑے ہیں صرف وہی نشست پہ تشریف رکھ چکے ہیں تو وہ دوبارہ سے کھڑے نہ ہوتے۔ دوبارہ کھڑے اگر ہو ہی گئے تو پھر کھڑے رہیے، دیگر راہنما کم مرتبہ ہو سکتے لیکن پوٹن تو ایک بڑے عالمی راہنما تھے وہ بھی ابھی آ رہے تھے۔ لیکن نہیں، یہاں ہمارے وزیر اعظم نے دوبارہ سے ایک فیصلہ کیا اور دوبارہ سے نشست پہ بیٹھ گئے۔

اب اس اٹھک بیٹھک کو پاکستان میں تو دیکھا گیا، محسوس کیا گیا، اور اس پہ ڈھکے چھپے الفاظ میں تنقید بھی کی گئی۔ لیکن خلیج ٹائمز جیسے عالمی میڈیا گروپ میں اس خبر کا آنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے عالمی سطح پہ نہیں دیکھا گیا۔ اب پاکستانی میڈیا کا دائرہ کار تو چلیے پاکستان تک محدود ہے لیکن عالمی میڈیا تو پوری دنیا میں پڑھا، دیکھا، سنا جاتا ہے۔ وہ اس معاملے کو جب شائع کریں گے تو یقینی طور پر پاکسان کی جگ ہنسائی کا سبب بنے گا۔ اور عالمی سطح پہ ناکامی تو چلیے نہ سہی لیکن ہزیمت ضرور اٹھانا پڑئے گی۔

اب اس معاملے میں دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ محترم وزیر اعظم کو سب سے پہلے تو کنٹینر کے موڈ سے نکلنا چاہیے۔ اور اپنی تقریروں اور لفظوں کے چناؤ میں یقینی طور پر احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ اب ان کے کندھوں پہ بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان سے پاکستانی عوام کی امیدیں اس سے پہلے تمام حکمرانوں سے زیادہ ہیں۔ اعتماد اچھی چیز ہے لیکن خود اعتمادی کا شکار بھی زیادہ ہونا اچھی بات نہیں۔ قومی نشریاتی ادارے پہ چند دن پہلے کی تقریر کا لب و لہجہ بھی سربراہ مملکت سے زیادہ کنٹینر پہ کھڑے عمران خان صاحب جیسا لگا۔

سزا ہر مجرم کو دیجیے۔ ہر کرپٹ کو پکڑے لیکن آپ جس کرسی پہ ہیں وہ نعروں تقریروں سے بہت آگے کی ہے۔ اس پہ بیٹھ کے فیصلوں میں متانت پیدا کجیے کہ اب یہ اپوزیشن راہنماؤں جیسا لب و لہجہ آپ کے شایان شان نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کے وزیر مشیر ہی کافی ہیں۔ اسی تقریر کا اثر شاید بشکیک تک چلا گیا۔ دوسری صورت یہ کہ باقاعدہ ٹیم اگر ہے تو اس کے کان کھینچیے اور اگر نہین ہے تو بنائیے جو بیرونی دوروں میں باقاعدہ ہوم ورک کرئے اور وزیر اعظم کو اس ہوم ورک کے مطابق ایسے اپڈیٹ رکھے کہ جگ ہنسائی نہ ہونے پائے۔

کانفیڈنس اور اوور کانفیڈنس میں ایک بہت باریک سی لائن ہے اس لائن کو پار کرتے ہیں مثبت سے زیادہ منفی اشاریے ہماری جانب آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ تقریر فی البدیہیہ بھٹو بہت اچھی کرتے تھے۔ لیکن اس میں بھی کوئی برائی نہیں اگر تحیر کر لی جائے۔ پرچی پرچی کا شور پچھلے دور میں بھی بلند ہوا اب بھی ہوتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تحریر کیے گئے نقاظ کو ادا کرنا نسبتاً آسان بھی ہوتا ہے اور بہتر بھی۔ اس معاملے پہ بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے چاہے آپ ملک کے اندر عوام سے یا خواص سے مخاطب ہوں، چاہے عالمی سطح پہ کسی بھی فورم پہ اظہار خیال کر رہے ہوں۔

امید ہے کہ ہمارے وزیر اعظم مستقبل میں عالمی کانفرنسز میں اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ پوری دنیا کی نظریں ان پہ ہوتی ہیں، اپنے ساتھ ایسے تجربہ کار لوگوں کی ٹیم رکھیں گے جو سفارتی امور میں نہ صرف ماہر ہوں بلکہ ہر لمحہ وزیر اعظم کو ہر خطے، علاقے، کانفرنس، تنظیم کے حالات و واقعات سے بھی آگاہی دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).