سیاست دانوں کے نام


پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ فوج کی حمایت کے بغیر سیاست کی جاسکتی ہے اور نہ اقتدار مل سکتا ہے۔ میاں شہباز شریف کے بیانیہ سے آدھی سے زیادہ مسلم لیگ ن متفق ہے۔ چودھری نثار علی خان بھی نواز شریف کو یہی بیانیہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مگرنواز شریف فیصلہ کرچکے تھے کہ اب ووٹ کو عزت دو بیانیہ ہی چلے گا۔ مریم نواز اور کچھ نواز شریف کے ساتھی ووٹ کو عزت دو بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی یہ اندورنی جنگ ہے۔ جس کو ہم خاندان کی نظریاتی تقیسم کا نام بھی آسانی سے دے سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن سے پہلے جماعت اسلامی کی پوزیشن بھی یہی تھی کہ اقتدار میں آنے کے لئے فوج کی حمایت ضروری ہے۔ مگر منور حسن کی امارت میں جماعت اسلامی نے رخ بدل لیا اور اپنی سیاست پر توجہ دینی شروع کی جو کہ کسی بھی حقیقی سیاسی پارٹی کا طریقہ کار ہے۔ شاید پاکستان کی تاریخ میں جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت تھی کہ جس نے فوج کے ساتھ پہلا اتحاد کیا۔

باقی قابل ذکر نہیں ہیں کہ ان کی تخلیق ہی افواج پاکستان کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ جس طرح آج کی پاکستان تحریک انصاف ہے۔ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کا ہر ورکر یہ پختہ یقین رکھتا ہے کہ اقتدار فوج کی خاص مہربانی سے حاصل ہوا ہے اور اقتدار قائم بھی فوج ہی کے زیرسایہ رہ سکتا ہے۔ بصورت دیگر پی ٹی آئی حکومت چار دن بھی نہیں نکال سکتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مفاہمت کے نام پر مذکورہ بیانیہ پیپلزپارٹی میں چلنے لگا تھا مگر پیپلزپارٹی کے جیالوں نے مسترد کردیا۔

پیپلزپارٹی میں جو فوج کے ساتھ شراکت اقتدار کے بیانیہ کے پرچارک تھے۔ زیادہ تر نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی اور پیپلزپارٹی کافی حد تک پاک ہوچکی ہے۔ عہد رواں میں عام مزدور سے لے کر کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن سے بات کریں تو جس طرح پہلے زبان زد عام تھا کہ جو کچھ کر رہا ہے امریکا کر رہا ہے۔ آج زبان زد عام ہے کہ جو کچھ کررہی ہے فوج کر رہی ہے۔ عمران خان کا رات بارہ بجے قوم سے خطاب ہو۔ بجٹ کا اعلان ہو۔ آصف زرداری کی گرفتاری ہو۔ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ریفرنس ہو۔ سب فوج کروار ہی ہے۔ لوگ تو یہاں تک بھی کہہ رہے کہ وینا ملک کو بھی سیاست میں فوج ہی لے کر آرہی ہے۔ فوج سے اتحاد کے بغیر سیاست میں کامیابی اور اقتدار کے حصول کا بیانیہ بلاشبہ فوج نے ہی پروان چڑھایا ہے۔ جس کی پہلی کھڑکی نواز شریف نے کھولی اور دروازہ عمران خان نے کھول لیا ہے اور ملک کا سیاسی منظر نامہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب سیاسی جماعتیں اپنے طے کردہ نصب العین پر کارکنوں کو تیار کرنے کا بکھیڑا نہیں کرتی ہیں نہ ہی کارکنوں کی سیاسی تربیت کی جاتی ہے۔

کوئی تربیتی نصاب اور لٹریچر مرتب نہیں کیا جاتا ہے۔ جس کے نتائج ہم پارٹی کارکنوں کی جانب سے گالم وگلوچ کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر سٹڈی سرکل، لائبریری، کتاب کلچر، لیکچرز اس لئے ختم ہوچکے ہیں کہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہر سیاسی جماعت نے پی ٹی آئی کا بیانیہ اپنا لیا ہے کہ جب اقتدار کا حصول ہی فوج کے ذریعے ہے تو پھر باقی سب کچھ فضولیات ہیں۔ فوجی جرنیلوں کی حمایت کرو۔ فوجی جنرل کی ہر بات پر داد تحسین دو۔ اطاعت کا یقین دلاؤ اور اقتدار کی راہ ہموار کرو۔ عوام کے ووٹوں کی کیا ضرورت ہے۔

استاد صحافی اور قلم کار وجاہت مسعود نے کیا خوبصورت بات کہی ہے “غیر مہذب اور پسماندہ معاشروں میں تلوار چلانے والے طالع آزماؤں سے الفت جتائی جاتی ہے۔ یہ آمر کی ذات سے محبت نہیں، اندھی قوت کی ذلت آمیز اطاعت ہوتی ہے۔ اپنے حق استدلال سے دستبردار ہو کر چوپائیوں کی سطح پر اترنے سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔ تاہم سیاست اور سیاست دانوں کو من حیث المجموع مسترد کرنا معاشرتی پسماندگی اور ذہنی پستی کا نشان ہے۔

سیاست دان سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور اس سے اختلاف رکھنا بھی جائز ہے۔ یہ سب جمہوری مکالمے کا حصہ ہوتا ہے جس میں حق حکمرانی عوام کی ملکیت ہوتا ہے اور سیاست دان بنیادی طور پر ایک شہری کے طور پر اپنا نقطہ نظر بیان کر کے اس کے لئے عوامی تائید کا طلب گار ہوتا ہے تاکہ دستوری مدت کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق اقتدار میں آ کر اپنے نصب العین کو عملی جامہ پہنا سکے۔ جو لوگ سیاست دانوں سے الفت جتانا نہیں چاہتے، وہ رات کے اندھیرے میں قوم کی عفت پر ڈاکہ مارنے والے مجرموں سے بے شک پیار کی پینگیں بڑھائیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

کم از کم اتنی جرات ضرور پیدا کریں کہ سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے قوم کو یہ ضرور بتایا کریں کہ آپ کی نظر میں جمہوری سیاست کا متبادل کیا ہے۔ کیا آپ جمہوریت کی بجائے آمریت کی وکالت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ سیاست دان کا متبادل فوجی طالع آزما کو سمجھتے ہیں؟ کیا آپ سیاست دان کی بجائے کسی مذہبی شخص کو ملک سونپنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے الوہی تصورات کے مطابق آپ پر حکومت کرے؟ کیا آپ بادشاہت کے حامی ہیں؟ اس وضاحت سے آپ کا بیان مکمل ہو جائے گا اور تاریخ کے صفحات میں آپ کی بالغ نظری کا ثبوت بھی محفوظ رہے گا۔”

سیاست دان اور سیاسی کارکن یا بحیثیت سیاسی جماعت اس بیانیے پر کھڑی ہے کہ سیاست میں کامیابی اور اقتدار کا حصول فوج کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے تو وہ سیاستدان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں بلکہ سیاست اور سیاستدان کے لئے ننگی گالی ہیں۔ معاشرے کا ناسور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).