کپتان کا خیالی اور حقیقی بجٹ


بجٹ کے پیچیدہ اعداد و شمار، گنجلگ گوشواروں اور ادق اصطلاحوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کسی سیانے نے کہا تھا کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور میزانیہ (بجٹ) ۔ یوں توہماری مختصر تاریخ کا ہر بجٹ ہی غریب کُش، عوام دشمن اور زہرناک ہوتا ہے مگر جدید ریاستِ مدینہ کے ماڈرن ”خلیفہ“ کے عہدِ خلافت میں پیش کیا جانے والا حالیہ بجٹ حقیقت میں بجٹ سے زیادہ ٹیکس و محصولات نامہ ہے۔ اشیائے خور و نوش میں سے شاید ہی کوئی چیز بچی ہو جس پر ٹیکس نہ لگایا گیا ہو۔ مفلس اور مفلوک الحال عوام کو اب کھانے کے لیے غم اور پینے کے لیے آنسوؤں کے سوا کچھ میسر نہیں ہو گا۔ اس موقعے پر ہمیں مشہور شاعر جناب انور مسعود کی بجٹ پر کہی گئی نظم باوجود کہنگی کے یاد آرہی ہے۔ کچھ شعر آپ بھی سن لیں۔

بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انو کھے خسارے ترے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے

گرانی کی سوغات حاصل مرا
محاصل ترے، گوشوارے ترے
کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
کنائے ترے، استعارے ترے
تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
وڈیرے ہیں پیارے دلارے ترے

جدید ریاست مدینہ کے ماڈرن خلیفہ اور اس کے عاملین و حامیان کا اصرار ہے کہ یہ ملک کی تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس میں غریب عوام پر بوجھ نہیں ڈالا گیا بلکہ تمام ہوش رُبا ٹیکسز کے ہلاکت آفریں اثرات جنگلی جانوروں پر پڑیں گے۔ بجٹ کو سرسری نظر سے بھی دیکھا جائے تو عوام کو ملنے والی سہولیات کی تفصیل کچھ اس طرح سامنے آئیں گی:

بجلی:اپنے جنریٹر سے یعنی مہنگی ترین۔ گیس:اپنے گوبر سے۔ تعلیم:اپنے خرچ پر، کیونکہ جدید ریاست کے خلیفہ نے طلبہ و طالبات کے لیے ہر قسم کے وظائف ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ پانی:اپنے کنویں سے اگروہ اندھا نہ ہو گیا ہو تو۔ ٹرانسپورٹ:گدھا گاڑی یا دو پیروں پر اگر وہ سلامت ہیں۔ صحت:صرف امرا کے لیے۔ زندگی:اپنے رِسک پر۔

جدید ریاست مدینہ کے ماڈرن خلیفہ کو ہم اس بات پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا ایک وعدہ حرف بہ حرف ایفا کر دکھایا ہے جس میں انہوں نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں ان کو رلاؤں گا۔ ان کی چیخیں نکلواؤں گا۔ چیخ پکار اور آہ و فغاں کے ہنگام ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اس بجٹ پر انوکھا احتجاج کیا ہے۔ اس طبقے کے افراد نے بادشاہ سلامت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چھترول اور مرمت کرنے والے بندوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کر دیں تاکہ ان کا وقت بھی بچے اور گھبراہٹ بھی کم ہو۔

ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کا حال اس پریشر ککر جیسا ہے جس کے اندر آگ لگی ہوئی ہے مگر وہ اوپر سے سیٹیاں بجا رہے ہیں۔ مرمت اور گھبراہٹ سے یاد آیا کہ خلیفہء بے وقت کے علاوہ ہمارے سپہ سالار نے بھی جدید ریاست مدینہ کے مثالی انتظام و انصرام پر مکمل اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا ہے اور اسی جذبے سے عوام کی مرمت۔ معاف کیجیے گا خدمت کرتے رہنے کے فولادی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ان کے اس مبارک بیان پر تمام رعایا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کپتان نے کئی سال کے بعد مصنوعی اور جعلی بجٹ کی جگہ اصلی اور حقیقی بجٹ پیش کیا ہے۔ اس موقعے پر ہم قارئین کو ان کا مثالی اور بہترین بجٹ منصوبہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں جو انہوں نے 2014۔ 15 میں پیش کیا تھا:

سیلز ٹیکس کو پندرہ فیصد تک کم کیا جائے اور چار برس میں بتدریج دس فیصد تک لایا جائے۔ بجلی کی قیمت میں تیس فیصد تک کمی کی جائے۔ ٹیکس نہ دینے والے تیس لاکھ امیروں (جس میں جہانگیر ترین اور علیم خان وغیرہ شامل نہیں ہیں ) کو پکڑ کر زبردستی ایک ایک لاکھ وصول کیا جائے۔ ہنگامی بنیادوں پر سوس بینکوں میں پڑے ہوئے دو سو ارب ڈالرز ملک میں واپس لائے جائیں اور کوئلے کی قیمت میں اضافہ واپس لیا جائے۔

ہم منتظر ہیں کہ جدید ریاستِ مدینہ کے ماڈرن خلیفہ اپنے اس خیالی اور مثالی بجٹ منصوبے کو کب عملی جامہ پہناتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).