جہنمی


مکروہ آوازیں۔ بھیانک چہرے۔ آتشی دیواریں۔ نوکیلے سائے۔ تُند طوفانی بگولے۔ شاید مجھے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے۔

عجب نحوست زدہ مقام ہے : پیچھے زہریلے کانٹوں کا مسکن، آگے اژدھوں کی طویل قطار؛ جہنم کا دربان میری مدد کر سکتا ہے مگر پہلے اُسے یہ باور کرانا ہو گا کہ میں بے گناہ ہوں۔ میرا کوئی قصور نہیں۔ مجھے غلطی سے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے۔

ہو سکتا ہے یہ زندگی کی مجرد تصویر کو دیکھنے کا ترچھا زاویہ ہو۔ یہ بھی تَو ممکن ہے کہ میرے قدم ابھی تک زمین پہ گڑے ہوں اور جہنم کو بالوں سے گھسیٹ کر میرے اندر ڈال دیا گیا ہو۔

یہ احساس بہ ذات ِخود، کتنا خوبصورت ہے کہ مجھے جہنم کے اندر نہیں دھکیلا گیا بلکہ جہنم میرے اندر دھکیلی گئی ہے۔

ہونے کو تو دونوں باتیں ہی ٹھیک ہو سکتی ہیں مگر سچ کا پتا کیسے چلے گا؟ یہ تک نہیں معلوم کہ سزا مجھے دی جا رہی ہے یا جہنم کو۔

سب سے پہلے تو یہ جاننا ہو گا کہ میری ذات کا پھیلاؤ زیادہ ہے یا جہنم کا، اِس کے بعد ہی ساری کہانی واضح ہو گی۔ ہمیں لازماً کسی منصف کے پاس جانا ہو گا۔ اول تو کوئی منصف ملے گا ہی نہیں۔ اگر کوئی منصف مل بھی گیا تو اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اِس معاملے میں دلچسپی لے اور بغرضِ محال کوئی ہماری مدد کرنے پر آمادہ ہو بھی گیا تو لازمی نہیں کہ وہ ہم دونوں کے وجود کو تسلیم بھی کرے ؛ دنیا میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو بیک وقت ہم دونوں کے وجود کی گواہی دے سکتا ہے، اور یہ وہی ہے جسے جہنم نے بہلا پھسلا کر اپنا دربان بنا لیا تھا۔

اژدھوں کی تعداد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ میں جانتا ہوں اُن کی ہر پھنکار کے عقب میں ایک جلتا ہوا شرارہ گھات لگائے بیٹھا ہے۔ نتائج پہلے سے مرتب شدہ ہی سہی، لیکن کچھ تَوکرنا ہو گا۔ اِس سے پہلے کہ زہریلے کانٹوں کی لڑیاں، قرمزی خون کی دھاروں کو نیلگوں کر دیں، مجھے اُس پاگل قیدی کی طرح سوچنا ہے جسے کچھ ہی دیر بعد تختہئی دار پر لٹکا کر پھانسی دی جانی ہو۔

”بھائی دربان! خدا کے لیے مجھے بے گناہی کا پروانہ بنا دو۔ میں جلنا نہیں چاہتا۔ مجھ پہ رحم کرو! “

خوف پر قابو پانے کا آخری طریقہ یہی ہے کہ میں چیخ چیخ کر جہنم کے دربان سے رحم کی اپیل کروں۔

ممکن ہے اُس نے میری فریاد سن لی ہو مگر اُس کے کرخت چہرے کے تاثرات اِس بات کی گواہی دینے سے قاصرہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اُسے میری حالت سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ جب تک چاہے گا ایک کامیاب بہرے کی اداکاری کرے گا اور پھر ہاتھوں میں کدال تھامے، زمین کے سینے پر خراشیں ڈالنا شروع کر دے گا۔ اَب تک وہ درجنوں گڑھے کھود چکا ہے۔ معلوم نہیں یہ گڑھے کس کے لیے ہیں؟ عام حالات میں تو اُس کی یہی ایک حرکت مجھے پریشان کر دینے کے لیے کافی ہوتی، مگر اِتنی صعوبتیں اُٹھانے کے بعد یہ فعل محض ایک احمقانہ شعبدہ دکھائی دیتا ہے اور بس۔

جب خوف پر قابو پانے کا ہر طریقہ ناکام ہو جائے تو سرا سیمگی سے لطف اندوز ہونا ہی زندگی ہے ؛ میں آنکھیں بند کیے اِس جملے کو بار بار دہراتا ہوں یہاں تک کہ مثبت خیال کی رو، ارادے کی لہر بن کر اُبھرتی ہے اور نیلے جاودانی آسمان میں ہزاروں شگاف ہو جاتے ہیں۔

روشن پروں کی پھڑپھڑاہٹ، غیبی طاقتوں کے نزول کا اشارہ ہے۔

دربان ہاتھوں کا چھجا بنا کر خلا میں کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے تو اژدھے بوکھلا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مکروہ آوازوں کا شور کچھ تھم سا گیا ہے۔ آتشی دیواریں پگھل ہی نہ جائیں۔ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن بھی سورج کی مانند ہے۔ شکر ہے کوئی تو میری دھڑکنوں کا محافظ بننے پر آمادہ ہوا۔

”مجھے آگ کے چنگل سے بچالو نیک فرشتے! تمہیں تمہاری اچھائی کا واسطہ۔ “

اِسے عام آدمی کا نوحہ مت سمجھو۔ یہ اُس شخص کی التجا ہے جسے لوہے کی سیخوں میں پرو کرجلتے ہوئے تنور میں پھینک دیا گیا ہو؛ شاید اِسی لیے میرے مادی جسم سے پھوٹنے والی صدا، تخیل کے رتھ پر سوار ہو کر مقدس روشنیوں میں گھل جاتی ہے۔

جلد ہی باقی تمام آوازیں معدوم ہو جاتی ہیں اور زہریلے کانٹوں کی شاخیں، خشک لکڑیوں کی طرح دھڑ دھڑ جلنے لگتی ہیں۔

”اے، عظیم المرتبت جہنم کے دربانِ اعلیٰ! ہماری مدد کرو۔ مقدس روشنی نے ہماری جڑوں کا سارا پانی، بھاپ بنا کر فضا میں تحلیل کر دیا ہے۔ زیادہ نہیں، بس لہو کا ایک مشکیزہ چاہیے۔ “ زہریلے کانٹوں کے حلق سے دبی دبی سسکیاں برآمد ہوتی ہیں۔ ”اور اگر تم نے ہمیں نہ بچایا تو جہنم خود اپنی آگ میں جل کر بھسم ہو جائے گی۔ “

جہنم کے چہرے پر ہوائیاں سی اُڑنے لگی ہیں۔ یقینا وہ آنے والے لمحوں کی کوکھ میں چھپا کرب محسوس کر سکتی ہے۔ خونخوار اژدھوں کا طنطنہ بھی زیادہ دیر نہیں چلنے والا۔ جلد یا بدیر انہیں کینچوا بننا ہی ہو گا۔ کتنی خوشی کی بات ہے ہم سب مل کر فنا ہوں گے۔

میں چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے جہنم کے دربان کو تلاش کرتا ہوں۔ غالباً وہ خطرے کی بو پاتے ہی فرار ہو گیا تھا۔

میرے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہو جاتی ہے۔

میں اتنا بے بس بھی نہیں۔ پہلی بار مجھے اپنی طاقت کا صحیح ادراک ہوتا ہے۔ ہو سکتاہے یہ احساس چند ہی لمحوں میں اپنی وقعت کھودے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو سب کچھ بدل جائے گا۔

کسی نامعلوم قوت کے زیرِ اثر میرے قدم نشیب کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔

جلد ہی مَیں ایک وحشیانہ جست لگاتا ہوں اور زہریلے کانٹوں کے مسکن تک رسائی حاصل کر لیتا ہوں۔

اِس سے پہلے کہ گاڑھا سرمئی دھواں پھیپھڑوں میں سوراخ کر دے، مجھے ہر قیمت پر خشک جڑوں کا سلسلہ تلاش کرناہوگا۔

”ہماری جڑیں اتنی مضبوطی کے ساتھ زمین کے سینے میں پیوست ہیں کہ اِنہیں نوچ کر باہر نکالنے کے لیے صدیاں بھی کم ہیں۔ تمہارے پاس تو فقط چار ساعتیں ہی باقی ہیں احمق آدمی! “ کانٹوں کے شکم سے ایک مسلسل صدا پھوٹتی چلی جاتی ہے۔ ”اور تمام تعریفیں اُس عظیم المرتبت جہنم کے لیے، جس نے ہماری راکھ کو بھی اتنی قوت بخشی کہ اِس سے بلند ہوتا دھواں، تمہارے حقیر وجود کو ہمیشہ کے لیے نیست کردے۔ “

اُسی لمحے مخالف سمت سے چنگاریوں کا ایک طوفان سا لپک اُٹھتا ہے۔ شاید اژدھے بھی بدلی ہوئی صورتحال سے ہم آہنگ ہو کر آخری حملے کے لیے تیار ہیں۔ کریہہ الصوت آوازیں شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہزاروں شیطان صف بند ہو کر میرے کانوں میں تیزاب انڈیل رہے ہوں۔

ماورائی قوتیں غالباً ایک برق رفتار راست اقدام کے بعد پلٹ گئی ہیں۔ شاید وہ میری آڑ میں اپنا ہی کوئی ادھورا انتقام پایہ تکمیل تک پہنچانے آئی تھیں۔

متضاد قوتوں کی کشمکش سے جنم لیتا منظر نامہ اتنا ہولناک ہے کہ چند لحظوں تک میرے تمام حواس اِس کی جکڑن میں کُرلاتے پھرتے ہیں مگر ایک بار پھر بقا کا سراب مجھے عمل پر اُکسا لے جاتا ہے ؛ میں کہنیوں کے بل زمین پر رینگتے ہوئے زہریلی جڑوں کا سلسلہ تلاش کرتا ہوں، یہاں تک کہ میرا توازن بگڑ جاتا ہے اور میں راکھ پر لُو ٹنے لگتا ہوں۔

بالآخر سرنڈر کرنے کا وقت آن پہنچا اور یہی اس لمحے کا سب سے عظیم سچ ہے ؛ تیزابی دھوئیں کے مرغولے، پھیپھڑوں کو چھلنی کرنے کے بعد لہو کا حصہ بن چکے۔

ایک اُبکائی؛بس ایک اُبکائی اور مکمل شکست۔

یوں لگتا ہے جیسے کوئی چیز پسلیوں کو چیر کر باہر نکلنا چاہتی ہو؛ میں ذبح کیے ہوئے بیل کی طرح تڑپتا ہوں اور اندھا دھند ہاتھ چلاتا ہوں تاکہ واپسی کا سفر تیز ہو سکے اور اچانک۔ اچانک مجھے جڑوں کا سرا مل گیا۔

بالکل ٹھیک! ۔ یہی تو تھا! ۔ ہاں یہی! ۔ بالکل یہی! ۔ میں نہایت بے چینی سے جڑوں کا سرا پکڑتا ہوں مگر میرے پاس وقت اتنا کم ہے کہ شاید ہی کچھ ہو سکے۔ کائنات کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اوّل تو کامیابی ملتی ہی نہیں اور اگر مل بھی جائے تو اُس وقت تک ہم اِس قابل نہیں رہتے کہ اِس کے سرور سے لطف اندوز ہو سکیں۔

وقت اپنی جگہ پر ٹھہر سا گیا ہے۔ فیصلے کی گھڑی آپہنچی۔ میں جانتا ہوں کہ یہ میری آخری فتح ہے ؛ا ور بلاشبہ اتنی عظیم فتح کہ جہنم کی تقدیر میرے ہاتھ کی لکیروں میں سمٹ آئی ہے۔

ممکن ہے یہ جسارت مقدس طاقتوں کو برانگیختہ کر دے مگر ایک نہ ایک دن تو ایسا ہوتا ہی تھا!

میں اپنے وجود کی تمام قوتوں کو مجتمع کرتا ہوں اور ایک زور دارقے کی صورت میں اپنا سارا لہو زہریلے کانٹوں کی راکھ زدہ جڑوں میں انڈیل دیتا ہوں۔

غالباً یہ اب تک کی معلوم کائنات کا سب سے بڑا لمحہ حیرت ہے۔

اِسی لمحہ حیرت میں ہمیشہ کے لیے فنا ہونے سے پہلے، میں نے جہنم کو ایک حسین و جمیل وادی میں تبدیل ہوتے دیکھا اور آنکھیں موندلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).