لاہور کی چیلسی کا ڈاکٹر


جو لمحے وقت کے درختوں سے گِر جاتے ہیں پھر وہاں وہ لمحے نہیں بلکہ ان لوگوں کی داستانیں ملتی ہیں جن کی زیست کے شجر سے وہ لمحے گِرتے ہیں۔ ان پتوں کے گِرنے سے پہلے وہاں مکمل سکوت ہوتا ہے مگر جیسے ہی ان گِرے ہوئے پتوں پہ کسی کا پاؤں آتا ہے تو ان کی چرچراہٹ سے چیختے ہوئے پتوں میں سے کتنی کہانیاں، افسانے، گیت اور داستانیں ہواؤں میں رقص کرنے لگتی ہیں۔ ان کہانیوں کے قاری جب وہ قصے پڑھتے ہوئے ان کرداروں کی روح میں جھانکنے لگتے ہیں تو ان پہ کھُلتا ہے کہ کہانیوں میں بسنے والے فنکار درویش قسم کے مجنوں یا دیوانے ہوتے ہیں۔

اسی طرح کے ایک فنکار کا کردار ہمارے سامنے ہے جو ڈاکٹر بھی تھا، مصّور بھی تھا، رقاص بھی تھا، دانش ور بھی تھا، اداکار بھی تھا اور سب سے بڑھ کر لکھاری بھی تھا۔ کہتے ہیں مَیٹا فزکس کے مطابق دنیا کی 60 سالہ زندگی فقط تین منٹ پہ محیط ہوگی۔ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ڈاکٹر انور سجاد جیسے دانش ور کی زندگی جو 84 سالوں پر محیط تھی شاید مَیٹا فزکس کے مطابق 5 منٹ کی ہوگی مگرکتنی رنگارنگ پرتوں میں لپٹی ہوئی تھی اُن کی زندگی۔

لاہور ہمیشہ سے ہی فن و ادب کا مرکز رہا۔ لاہور میں ایک مقناطیسی کشش بسی رہی۔ اس شہرِ بے مثال کی گلیوں میں شاعری، ادب، مصّوری اورمختلف علوم کے پھول کھلتے رہے اور اپنی خوشبو بکھیرتے رہے۔ ایک وقت ایسا تھاکہ لاہور کی گلیوں سے فن و ادب کی خوشبو کے لدے ہوئے قافلے گزرا کرتے تھے۔ لاہور کے بھاٹی گیٹ پہ ادیب، مصّوراوردیگر فنکار وہاں جوق در جوق اکٹھے ہوا کرتے کہ وہ جگہ ”لاہور کی چیلسی“ کہلانے لگی، ”چیلسی“ لندن کے مضافات میں ایک ایسی جگہ تھی جہاں ادیب اور مصور حضرات رہائش پذیر تھے۔

اسی طرح لاہور کی پُر پیچ گلیوں میں جہاں جھروکے اور تاریخی مزّین دروازے ان گلی کوچوں کی رونق بڑھاتے تھے وہیں داستان گو اور مصّور بسا کرتے تھے۔ ”زندہ دلانِ لاہور“ کے فنکار قبیلے یہاں نہ صرف رہائش پذیر تھے بلکہ یہیں سے ہی تھیئٹر (تمثیل گھر) کاکام کرنا شروع ہوئے۔ اسی جگہ پہ ایک فنکار رہا کرتا تھا جو فن کی مختلف نوعیتوں کو اپنی شخصیت میں سموئے ہوئے پھرتا تھا۔ وہ عجیب بے چین سا شخص تھا جسے اللہ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔

اندرون لاہور میں ہی ڈاکٹر انور سجاد اپنا کلینک بھی چلایا کرتے تھے۔ زندگی کی بھٹی میں تپ کر وہ عام لوگوں کے مسائل کی آگ میں جلتے رہے۔ ضیا کے آمرانہ دورِ حکومت میں جیلیں بھی کاٹیں کہتے تھے حکمران جماعتوں کے اپنے اپنے مفاد ہیں جو صرف اپنے اپنے وقت میں مختلف چہروں کی تبدیلیاں لاتے ہیں نظام تبدیل نہیں ہوتا۔ ضیا کے مارشل لاء دور میں وہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جب پولیس انہیں گرفتار کرنے آئی تو انہوں نے اپنا سگریٹ سلگاتے ہوئے پولیس والوں سے کہا ہُوٹر چلاؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ میں نے ایک آمر کے آمرانہ نظام کے خلاف آواز اُٹھائی اور گرفتار ہوا۔

ٹیلے ویژن پہ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ ضیا کے دور میں ایک جرنیل سے ملنے گئے تو اس جرنیل نے ان سے پوچھا کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟ بولے میں نے جواب دیا ”میں fundamentalistہوں“۔ جرنیل صاحب نے پوچھاWhat do yo mean؟ تو تین چار مرتبہ یہی جواب دہرانے کے بعد جرنیل کے استفسار پہ بولے کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ بنیادی چیزیں ہیں۔ ہمارے نبی ؐ کا اسوۂ حسنہ بھی اس کا نمونہ ہے۔ سرکارؐ نے بادشاہت کو نہیں اپنایا میں بھی سرکارؐ کا ماننے والا ہوں۔

ڈاکٹر انور سجاد اپنے سماج کی بہت سی چیزوں کے Vulgarizationکی وجہ سے مایوسیوں کا شکار ہوگئے تھے۔ پاک و ہند کی ثقافت کے بارے میں کہتے تھے یہ صوفیوں کا خطہ تھا۔ علامہ اقبال ؒ کو وہ صوفی مانتے تھے۔ قائد اعظم ؒ کو وہ اپنا سچا لیڈر مانتے تھے۔ وہ لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ 1964 میں انور سجاد نے پی ٹی وی کے لیے اپنا پہلا ڈرامہ ”رس ملائی“ کے نام سے لکھا۔ انور سجاد تمام فنون کو موتیوں کی پروئی ہوئی ایک لڑی کی طرح دیکھتے تھے ان کے نزدیک آرٹ کی سب جہتیں آپس میں مربوط تھیں۔

ان کے نزدیک اگر کسی نے خود کو ایک فن تک محدود رکھا ہو تو وہ فنکار صرف ایک ہی جہت میں قید ہو کر رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں جابجا مصّوری کا رنگ اور موسیقی کا آہنگ اور رقص کی تھاپ نظر آتی ہے۔ 1981 میں انہوں نے ناول ”خوشیوں کا باغ“ لکھا جو بہت مقبول ہواجو ایک ڈِچ مصّور Hieronymus Boshکی میورل پینٹنگGarden of Earthly Delightsکے نظریے کو لے کر لکھا گیا تھا۔ یہ پینٹنگ تین حصوں پر مشتمل تھی۔

جس میں پہلا حصہ انسان کی تخلیق سے متعلق ہے، دوسرے حصے میں مردوں اور عورتوں کا وہ ہجوم ہے جس میں لوگ دنیا کی عارضی لذتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تیسرے حصے میں جہنم کا خوفناک منظر پینٹ کیا گیا جو گناہوں کی سزاؤں سے جُڑا ہوا ہے۔ انور سجا د کا یہ ناول سیاسی نوعیت کا ہے جس میں تجریدی اور علامتیں مثالوں سے ملک کی ناکام ہوتی ہوئی سیاست کا نقشہ رنگوں میں نہیں بلکہ لفظوں میں پینٹ کیا گیاہے۔ ڈاکٹر انور سجاد کو 1989 میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

انہوں نے ناول، افسانے اور ڈرامے لکھے اور انہیں مشکل لکھاری گِنا جاتا تھا کہ وہ اپنی سوچ کے زاویے بہت بل دار طریقوں سے جلیبی کی طرح کاغذ پہ اُتارا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں وہ کہتے تھے کہ رائٹر اپنی لگن کے تحت لکھتا ہے تویہی کام قاری کا بھی ہونا چاہیے یعنی وہ بھی شوق اور لگن سے پڑھے۔ مہاراج کتھک سے انہوں نے کلاسیکل رقص بھی سیکھا تھا۔ کہتے ہیں پوری کائنات میں جو rhythmہے وہ رقص ہی تو ہے۔ ان کے نزدیک dynamism ہمیشہ انسانوں کو zombiesبننے سے روکتا ہے۔

شعور کی منزلیں طے کرتے ہوئے لوگوں کے ambienceمیں سماجی تبدیلیاں آتی ہیں۔ انہوں نے اندرونِ شہر میں لوگوں کی زندگیوں کو قریب سے دیکھتے ہوئے اپنے افسانے اور ڈرامے لکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کواپنا نعرہ نہ بنائیں اس پہ عمل کریں۔ خدا کی شناخت انسان کے وسیلے سے ہے ایسا بھی کہنا تھا ڈاکٹرانورسجادکاکہا کرتے تھے انسانوں سے محبت کریں کیونکہ محبت میں زیادتی نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں پیدا کر دہ بحران کو وہ ریاستی بحران نہیں بلکہ پولیٹیکل بحران کہا کرتے تھے۔

ڈاکٹر انور سجاد جیسے حساس لوگ اس معاشرے میں misfitہوتے ہیں۔ یہاں جینے کے لیے دل پتھر کا اور حِس بے حسی کی ہونی چاہیے لیکن یہ دونوں چیزیں انور سجاد کے پاس نہ تھیں۔ خدا اُنھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین! ڈاکٹر انور سجاد ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اُٹھاتے تھے بلکہ جبر کے خلاف احتجاج بھی کرتے تھے۔ وہ محبت کے پیڑوں پہ امن و آتشی کے گھونسلے بنانا چاہتے تھے۔ ملکی سیاستی سٹیٹس کوکے نظام کے خاتمے کے بعد عوام کی خوشنودی اور مفاد کے خواہاں تھے۔

انور سجاد کی آنکھوں میں ہر وقت خوابوں اور آدرشوں کے دیے جلتے رہتے تھے۔ اختتام نہایت معروف اور قابلِ احترام لکھاری رضا علی عابدی صاحب کے اس پُر تعزیت جملے سے کروں گی: ”قافلے چل دیں گے سارے، راستہ رہ جائے گا“۔ سچ کہتے ہیں آپ عابدی صاحب! راستہ اور اس پہ سب کے قدموں کے نشان باقی یہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم تھکے بِنا کتنا چلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).