بجٹ تماشا


تحریک انصاف کا پہلا بجٹ پیش کرنے جا رہی تھی، اپوزیشن نے حسب عادت بجٹ آنے سے پہلے ہی، اِسے عوام دشمن اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر پورا اترتا قرار دیا، اس کا موقف ہے کہ اگر عمران خان پہلے ہی آئی ایم ایف کے پاس چلا جاتا تو نرم شرائط پر قرض مل سکتا تھا اور حالات اتنے برے نہ ہوتے۔ خیر پچھلی ستر سالہ تاریخ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہر حکومت نے خسارے کا بجٹ ہی بنایا، لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستانی عوام کو اپنے بلند و بالا دعووں اور پِھر یو ٹرن لینے پر کافی مایوس کیا ہے۔

عوام نے عمران خان کا نعرہ کہ پاکستان کے مالیاتی بحران کا سبب کم ٹیکسز ہے، حکومتی شاہ خرچییوں کو دیکھتے ہوئے مسترد کر دیا، اگرچہ یہ بات یقینی ہے، آنے والے بجٹ میں آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط کے اثرات نمایاں طورٹیکسوں کی بھرمار کی صورت میں نظر آئیں گے۔ لیکن حکومتی ٹولے نے غیر ملکی دوروں اور عمرہ کی شکل میں پاکستانی غریب عوام کا پیسہ جس طرح بے دریغ استعمال کیا ہے، یہ عمران خان کے اس نعرہ کو کھوکھلا ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کی مالیاتی کامیابی صرف اور صرف ٹیکسز کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔

ہاں ٹیکسز کے نظام کو شفاف بنانا انتہائی ضروری ہے، جہا ں بَڑے بَڑے سرما یہ کاروں کو تو نا صرف قرض آرام سے مل جاتا ہے، بلکہ معاف بھی ہو جاتا ہے، جب کے چھوٹے کاروباری حضرات اور غریب کاشت کار کو قرض کا حصول اور ادائیگی انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ پاکستانی مالیاتی خسارے کا ایک برا سبب دفاعی اخراجات میں غیر پیداواری اضافہ ہے، بجٹ کی آمد سے پہلے ہی آرمی چیف نے بیان دیا ہے کہ کرنل سے لے کر چیف تک کے آرمی افسران کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جا ہے گیں، لیکن جا ننے والے جا نتیں ہیں کہ آرمی افسران کو تنخواہ کے علاوہ مراعات کی مد میں کیا کیا سہولیات دی جاتی ہیں اور ان پر کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے، وہ پیسہ جو عوام ٹیکسز کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ عوام نے بھی اس بیان کو سیاسی بیان سمجھ کر زیادہ خوش فہمیاں پالنے سے گریز کیا۔

دو ہزار اٹھارہ میں الیکشن جیت کر آ نے والی تحریک انصاف کی حکومت کا ایک دعوی مہنگائی کو کم کر کے غریب کو ریلیف دینا بھی تھا، جو دوسرے بہت سے دعووں کی طرح بس سیاسی بیان بازی ہی ثابت ہوا۔ پہلے دن سے ہی موجودہ حکومت نے اپنی ہر ناکامی کا ذمے دار سابقہ حکومتوں کوٹھہرایا، لیکن اگرآنے والے بجٹ کے تناظر میں دیکھا جا ہے، تو ہر صاحب ہوش کو نظر آتا ہے، موجودہ حکومت نے کھربوں روپیے کے قرض لیے اور کوئی بھی کامیاب منصوبہ شروع نہیں کیا، بلکہ پہلے سے جاری منصوبوں کو بھی غیر یقینی بنا دیا۔ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرض لینے کے بعد بڑی بڑی صنعتیں جو ملکی خزانے میں ایکسپورٹ کے ذریعے اضافے کا باعث بنتی ہیں، پر بھاری مقدار میں ٹیکس عائد کرنا پڑے گا، جس سے ہماری ایکسپورٹ کوناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

پاکستان ایک بدقسمت ملک ہے، جس کا پچھلے 72 سالوں میں قرضوں کا بوجھ 3 کھرب تک بڑھ چکا ہے، بجا ہے اس کے کہ عسکری اور سویلین حکمرانوں کے غیرپیداواری خرچے کم کیے جائیں، اور عوام پر ٹیکس آمدنی کے مطابق لگایا جائے، یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے، اگر صرف ٹیکسز سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں خرچ کی جائے تو بہتری کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ جو کہ ناممکن ہے کیوں کہ ٹیکس چوری کرنے والے بڑے بڑے چور تو خود اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، خود عمران خان شوکت خانم ہسپتال سے حاصل ہونے والی آمدنی ظاہر نہیں کرتا، کیوں کہ ٹیکس چوری کا ایک مَحفُوظ طریقہ ٹرسٹ بنا کر کاروبار کرنا یا چیرٹی کے ذریعے پیسہ اکٹھا کرنا ہے، جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ اسی لیے بہت سے اعلی حکام بھی سائیڈ بزنس کے طور پر X، Y، Z ٹرسٹ چلاتے

ضرورت اس امر کی ہے کہ غریب عوام جو پہلے ہی جو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے ہیں، کو ضروریات زندگی کی اشیا پر ٹیکس ختم کر کے ریلیف دیا جائے، جب کہ ٹیکس چوروں سے چا ہے وہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوں یا سرکاری دفاتر میں، آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے، جب تک قانون کی نظر میں سب برابر نہیں ہوتے معاشی استحکام حاصل کرنے کا خواب دیکھنا، احمقوں کی جنّت میں رہنے کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).