ادب میں فحاشی کا کیا مقام ہے؟


اردو ادب میں عریاں نگاری کو ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ کیا گیا۔ ”انگارے“ وہ پہلی تصنیف تھی جس کے خلاف غلغلہ اٹھا اور اسے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ عصمت چغتائی کا ”لحاف“، حسن عسکری کا ”پھسلن“ اور پھر میرا جی اور راشد کی نظموں نے یہ رائے عام کر دی کہ ترقی پسند ادب عریاں ہے اور ترقی پسندی عریاں نگاری کی متبادل ہے۔ لہٰذا، یہ یاد دلانے کی شاید ضرورت نہیں کہ اسی افواہ کے سد باب کے لیے ترقی پسندوں نے اپنی انجمن کا ایک ہنگامی اجلاس کیا جس میں یہ ریزولیشن لانے کی کوشش کی گئی کہ عریاں نگاری ترقی پسندی نہیں ہے۔

 لیکن احتشام حسین صاحب نے اس پر کافی حیرت کا اظہار کیا کہ اس ریزولیشن کی سخت ترین مخالفت مولانا حسرت موہانی نے کی تھی، نتیجتاً اس کی نوعیت بدل دی گئی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ وہ حضرات جو آج عریاں نگاری کو معتوب کرنے میں ذرا سی بھی توقف نہیں کرتے، ان میں سے شاید ہی مولانا سے زیادہ کوئی متقی اور پرہیز گار ہو۔

منٹو کے افسانے ”ٹھنڈا گوشت“ پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ”۔ ۔ ۔ اگر اس کی تفصیلات بذات خود عریاں ہیں تو اس کی اشاعت میں شامل نیت اور ارادہ بھی اسے عریاں ثابت ہونے سے نہیں روک سکتے۔ “ فاضل جسٹس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”یہاں یہ نکتہ بالکل غیر اہم ہے کہ کہانی لکھتے وقت مصنف کی نیت کیا تھی۔ ایسے مقدمات میں رجحان کی اہمیت ہوتی ہے نہ کہ نیت کی۔

لیکن اگر ہم اس ضمن میں ”نیت“ یا ”مقصد“ کو خارج کر دیتے ہیں تو پھر دیکھیے کیسا انتشار پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن حکیم کی کچھ آیتیں ہیں جن کا ترجمہ کرنے میں مولوی نذیر احمد نے ایک نوٹ لگایا ہے کہ عربی لفظ سے عریاں چیز مراد ہے، اس لیے انھوں نے دوسرا لفظ استعمال کیا جو با اخلاق لوگوں میں رائج ہے۔ صحیح بخاری شریف میں بہت سے ایسے واقعات درج ہیں جو جدید عریاں نگار وں کے دانت کھٹے کر دیں۔ ان تمام کتابوں میں جن کو آسمانی اور مذہبی تسلیم کیا جاتا ہے جیسے ”بھگوت گیتا“، ”توریت“، ”انجیل“ یا ”ژنداوستا“ میں ایسے حصے ضرور ہیں جن کو عریاں کہا جائے۔

 شیخ سعدی جیسے مصلحین اخلاق ”گلستان“ کے باب پنجم میں کچھ حکایتیں بالکل عریانی کے ساتھ رقم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا روم بھی اپنی اس مثنوی جسے ”ہست قرآن در زبان پہلوی“ کہا گیا ہے، کچھ ایسے عریاں قصے بیان کرتے ہیں جو آج کل کے تمام عریاں نگار وں کو مات دے دیتے ہیں۔ دوسری طرف ذرا ملٹن کو دیکھیے جسے زاہد خشک کہا گیا، وہ بھی حوا کی تصویر کھینچنے میں عریانی سے پرہیز نہیں کرتا۔ خود مسلمانوں میں شیعہ سنی میں متعہ کا عمل کسی قدر نازک ہے۔ سنی اسے بدکاری کہتا ہے جب کہ شیعہ اسے جائز گردانتا ہے۔

مذاہب کے علاوہ اب تاریخ نویسی پر ذرا ایک نظر ڈالیے۔ جب کوئی مورخ عباسی اور اموی دور معاشرت کا خاکہ کھینچے گا تو اسے یہ بتانا ہو گا کہ ”مقیاس الشباب“ کو قابو میں رکھنے کے لیے اس وقت چھوٹے کپڑوں کی تراش خراش کیا ہوتی تھی۔ حرم سرا میں شب خوابی کا لباس کیا ہوتا تھا، وغیرہ۔ تو کیا ہم تاریخ نویسی کو بھی عریاں نگاری سے موسوم کریں گے؟

دیکھا آپ نے، نیت اور مقصد کو خارج کر دینے کا انجام؟ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن حکیم میں جو ”عریاں“ الفاظ ہیں، ان کے ذریعے ایسی ہدایت منظور ہے جس سے آدمی بھٹک نہ سکے۔ اسی طرح احادیث میں جو ”عریانی“ ہے، اس کو ہم عصمت رسول ؐ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عریاں نگاری میں ”نیت“ کا بڑا دخل ہے اور یہ دیکھنا ضروری ٹھہرا کہ یہ کس مقصد سے کی گئی ہے۔

اس کے برخلاف ذرا خواتین کے مقبول رسائل کی تحریروں اور بطور خاص ان میں شائع ہونے والے اشتہارات کا بھی جائزہ لے لیں جہاں مثلاً کچھ اس طرح کی تحریریں نظر آتی ہیں، ”خواتین کے پوشیدہ امراض اور ان کا علاج“، ”ماہواری میں کمی کا علاج“، ”سینے کے ابھار میں نقص“، ”کولھے بہت بھاری ہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہی نہیں بلکہ کئی مذہبی رسائل میں مولانا صاحب کے قیمتی مشورے پڑھ کر قارئین کو جو ذہنی آسودگی ملتی ہے، وہ بیان سے باہر ہے اور جو کچھ اس قسم کے موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں، ”بیوی کے ساتھ غیر فطری فعل کے بعد نکاح کا ٹوٹنا“، ”میاں کے لیے بیوی کے ساتھ مباشرت کب اور کیسے جائز ہے؟ “، ”خاوند کے منھ میں دانستہ بیوی کا دودھ چلا جائے تو شرعی حکم؟ “ وغیرہ وغیرہ۔

پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے دور میں خواتین کی ہاکی ٹیم جیسے فروعی مسئلے پر جب لوگوں نے اپنی توانائیاں ضائع کرنی شروع کیں تو ایک خاتون رہنما نے فرمایا کہ خواتین اپنے گھروں کی چہار دیواری کے اندر ہاکی اس طرح کھیل سکتی ہیں کہ مرد حضرات ان کو نہ دیکھ پائیں۔ ایک بار ڈاکٹر اسرار احمد نے بھی عمران خان کو صرف اس لیے مجرم قرار دے دیا، کیوں کہ ان کے مطابق عمران اپنی گیند کو اپنی ران پر نہایت ہی اشتعال انگیز طور پر رگڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم نے ایک زمانے میں لڑکیوں پر سورۂ یوسف کی تفسیر پڑھنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔

لوگ اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ اشیا اور اعمال فحش نہیں، محض دماغی حالت فحش ہوتی ہے۔ قول رسول ؐ ہے، ”انما الاعمال بالنیات“ ؛ عمل نہیں بلکہ وہ ذہنی حالت جس کی وجہ سے ارتکاب عمل ہوتا ہے، اسی کو اچھا یا برا کہا جا سکتا ہے۔ اسی قول کی روشنی میں ادب میں اس مسئلے کا حل نسبتاً آسان ہے، کیوں کہ ادب تو نام ہی ذہنی حالت کا ہے، وہ ذہنی حالت جو لفظوں کی شکل میں ہم پر ظاہر ہوتی ہے۔

جہاں تک جنسی اشتعال کی بات ہے تو یہ کیسے طے ہو کہ کون چیز کسی فرد کو مشتعل کر سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کے جذبات میں محض کاجل بھری آنکھیں ہیجان برپا کر دیتی ہیں تو کیا آپ آنکھوں میں کاجل ڈالنے کو بھی فحاشی قرار دیں گے؟ کچھ افراد کو ایک زیر لب مسکراہٹ ہی زخمی کر جاتی ہے، تو کیا آپ مسکراہٹ پر پابندی عائد کریں گے؟ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے جذبات پرندوں اور حیوانوں کے اختلاط سے برانگیختہ ہو جاتے ہیں، تو کیا آپ پرندوں اور حیوانوں کو فحش قرار دے کر انھیں ملک بدر کر سکتے ہیں؟

 اچھا چھوڑیے ان خارجی محرکات کو، ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو تنہائی میں آنکھیں موند کر تصور میں ڈوبتے بہکتے ہی چلے جاتے ہیں تو کیا آپ تصور کو فحاشی سے تعبیر کر کے اس پر حد قائم کریں گے؟ ہمارے ہاں گلی گلی اور محلے محلے مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں بطور خاص حسین شاعرات کو نہ صرف مدعو کیا جاتا ہے بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ انھیں اسٹیج کی پہلی صف میں بٹھایا جائے تاکہ سامعین انھیں دیکھ کر اپنی آنکھیں سینکتے رہیں۔

 ان شاعرات کا انتخاب اکثر و بیشتر ان کی قادرالکلامی پر نہیں بلکہ ان کے عشوے و غمزے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب یہ شاعرات تیر و تبر سے لیس ہو کر مائک پر ترنم ریز ہوتی ہیں اور ”معاملہ بندی“ (جسے مصحفی نے ”چھنالے کی شاعری“ کہا ہے ) والے اشعار مسکر امسکرا کر سامعین کی طرف اچھالتی ہیں تو سامعین کی پہلی صفوں میں موجود مقطع صورتیں بھی کھل اٹھتی ہیں۔ ایک تہذیبی اور ثقافتی علامت کی یہ تذلیل دیکھ کر کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ جو ”شرفا“ معاشرتی دباؤ کے سبب مجرے نہ دیکھ پانے کی محرومی سے دو چار ہیں، انھوں نے اسے مشاعرے کی شکل دے دی ہے؟

 تو پھر اگر عصمت افسانہ لکھتی ہیں تو اس پر اعتراض کیسا؟ اگر صادقین مصوری کرتا ہے تو اس پر احتجاج کیوں؟ اگر آپ اس حقیقت کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تو ہر فن کار کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دیجیے تاکہ وہ روشنی اور اندھیرے کی تمیز نہ کر پائے، ان کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیجیے تاکہ ان کے احساس کو سرگوشیوں میں ڈوبی سسکیاں نہ جھنجھوڑ پائیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

اشعر نجمی، ممبئی، ہندوستان

اشعر نجمی ممبئی کے سہ ماہی جریدے ”اثبات“ کے مدیر ہیں۔

ashar-najmi has 4 posts and counting.See all posts by ashar-najmi