عمران خان کو کن اقدامات کی ضرورت ہے


عمران خان اپنے دعوؤں کے دس فیصد کو بھی عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ چالیس سے پچاس ایم این اے ہیں جو کسی غیبی اشارے پر ہر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے مفادات سمیٹتے ہیں ہر الیکشن سے پہلے ان کا ضمیر جاگ جاتا ہے اور یہ فصلی بٹیرے نئی پارٹی جوائن کر لیتے ہیں ظاہر ہے ان سب کے اقدامات کا جواب عمران خان کو دینا ہے۔ پھر ملک کے ہر اہم ادارے ہر اہم کاروبار پر مافیاز کا راج ہے جو ضیاءالحق کے زمانے سے ہمارے معاشرے کا جزو لاینفک بنا۔

اس میں افغان مہاجرین امریکی ملا اور ہیروئین کی بلیک منی وائٹ کرنے والی اشرافیہ تھی جس نے ہر جگہ پنجے گاڑ لئے۔ کپتان کو اب چو مکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے کبھی اچانک مارکیٹ سے ڈالر غائب کبھی اچانک سٹاک ایکسچینج ڈاؤن کبھی اچانک اشیائے ضروریہ شارٹ۔ کپتان کو کبھی اندازہ نہ تھا کہ اتنے محاز پر لڑنا پڑے گا بلکہ خوش فہم کپتان کا ہر پاکستانی کی طرح خیال تھا کہ چند لوگوں کو ٹانگ دو باقی خود ہی سیدھے ہو جائیں گے۔ جبکہ ہوا اس کے برعکس اپنی گردن پھنستی دیکھ کر تمام مافیا صف آرا ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

ایک بات تو واضح ہے اس مائنڈ سیٹ اور اس ٹیم کے ساتھ کپتان کوئی معجزہ دکھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ میرے خیال میں عمران خان کے پاس دو راستے ہیں ایک تو اپنی شکست تسلیم کر کے واپس بنی گالا چلا جائے۔ یا کسی سیاسی تحریک سے اتحاد کر کے کان نمک میں نمک بن جائے۔ دوسرا رستہ تھوڑا کٹھن ہے لیکن وہی واحد بقا کا رستہ ہے۔ جماعت اسلامی کے بعد عمران خان واحد سیاست دان ہے جس کے پاس جدو جہد کرنے اور بے غرض ساتھ دینے والا نوجوان طبقہ موجود ہے۔

سب سے پہلے تعلیم کی طرف آتے ہیں خان نوجوان طبقے کو رضاکارانہ طور پر غریب بچوں کو تعلیم دینے کا ٹاسک دے سکتا ہے جو روزانہ کی زندگی کا صرف آدھا گھنٹہ نکالیں۔ یاد رکھئے تعلیم شعور دیتی ہے حروف کی شناخت اپنے حقوق کی آگہی اور حق تلفی ہونے کی صورت میں شکایت کا طریقہ کار یہ اس تعلیم بالغاں کی بنیاد ہونی چاہیے۔

پھر جرائم کی روک تھام کے لیے محلہ کمیٹی بنا کر جرائم کی روک تھام کی جا سکتی ہے دہشت گرد بھی ہمارے بیچ چھپے ہوئے ہیں صرف عام آدمی ان کے ڈر سے رپورٹ نہیں کرتا یہ نوجوان ایم این اے لیول تک معلومات دے سکتے ہیں جو آگے پہنچا کر کارروائی کی جائے۔ ایم کیو ایم کا سیکٹر ماڈل اس کی بہت اچھی مثال ہے۔

پھر صفائی کا شعور ہے جس پر کوئی خرچ نہیں آنا اگر نوجوان پبلک مقامات کو رضاکارانہ طور پر صاف کرنا شروع کریں تو شعور بیدار ہو سکتا ہے۔ ری سائکلنگ انڈسٹری اور کوڑے وغیرہ سے بجلی بنانے پر پیلی ٹیکسی سکیم کی طرح قرضہ دیا جائے اور بجلی نجی شعبے کو بیچنے کا اختیار دے دیں۔ جرمنی کی طرز کا پری پیڈ سسٹم بجلی بل کی نجی طور پر وصولی کا بہترین حل ہے۔

گرین پیس کی طرز پر نوجوانوں کی تحریکیں جو ویسٹ پانی اور پینے کے پانی کے نمونے چیک کریں اور رپورٹ اخبار میں دے کر مقامی میونسپلٹی کے خلاف جائداد ضبطی جیسی سخت سزائیں دی جائیں تو صحت کا بجٹ دس فیصد رہ جائے گا۔

اور سب سے اہم سوویت یونین کی طرز پر کمیون بنا کر خود انحصار گاؤں بنائے جائیں جو بجلی کی پیداوار چھوٹے ڈیم لائیو سٹاک اور مقامی کاروبار کو فروغ دے سکیں

خان صاحب یاد رکھئے منیجمنٹ کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ آپ اس ذہن سے مسائل حل نہیں کر سکتے جس ذہن نے مسائل پیدا کیے ہوتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).